اخترجمال عثمانی
ٹیرف Tariff کا عام طور سے مطلب وہ ٹیکس ہے جو درآمد کی جانے والی اشیا پر کسی حکومت کی طرف سے لگایا جاتا ہے۔ اس کا پہلا مقصد تو مقامی صنعتوں کو تحفظ دینا ہوتا ہے کہ غیر ملکی سامان سستا ہونے کی وجہ سے مقامی بازار پر قبضہ نہ کر لے اور دوسرا مقصد آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے۔ عملی طور پر اس کو اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ہندوستان سے برآمد ہو کے جو چیز امریکہ میں 100 ڈالر کی پڑتی رہی ہے وہ پچاس فیصد ٹیرف لگنے کے بعد وہی چیز 150 ڈالر کی پڑ رہی ہے ۔آج کے دور میں دنیا کی معیشت ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ کسی بڑی طاقت کے فیصلے کا دور رس اثر عالمی تجارت اور ملکوں کی معیشتوں پر مرتب ہوتا ہے۔ آج کل جس فیصلے نے بین الاقوامی سیاست اور تجارت کو لے کر سب سے زیادہ توجہ حاصل کی ہے وہ امریکہ کی جانب سے ہمارے ملک پر پچاس فیصد ٹیرف کا نفاظ ہے ۔ اس پچاس فیصد ٹیرف میں پچیس فیصد ریسیپروکل ٹیرف ہے اور پچیس فیصد پینالٹی ۔ یہ پینالٹی ہندوستان کی روس سے تیل کی خریداری کے نام پہ عائد کی گئی ہے۔ اس خریداری کو امریکہ روس یوکرین جنگ کے دوران روس کو فنڈنگ قرار دے رہا ہے۔ یہ ٹیرف امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے 27 ا گست 2025 سے لاگو ہو گیا ہے۔ اس فیصلے نے نہ صرف ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ کیا ہے بلکہ اس کے اثرات ہندوستان کی معیشت، روزگار اور بین الاقوامی تعلقات پر مرتب ہونا یقینی ہے ،بظاہر امریکہ کا دعویٰ ہے کہ کہ ہندوستانی مصنوعات پر زیادہ ٹیرف کا مقصد امریکی صنعتوں خاص طور پر زراعت، اسٹیل اور ٹیکسٹائل کا تحفظ ہے اور وہ بھارت کے ساتھ تجارتی خسارہ کم کرنے کا خواہاں ہے۔ لیکن موجودہ سیاق و سباق میں یہ فیصلہ معاشی کے بجائے سیاسی زیادہ لگتا ہے۔ اس کی وجہ امریکہ کی یہ دلیل ہے کہ پابندی کے باوجود ہندوستان کے روس سے تیل خریدنے کی وجہ سے روس کو معاشی استحکام ملا اور اس طرح امریکہ اسے یوکرین کے خلاف جنگ میں روس کی مدد گردانتا ہے۔ اس کے علاوہ موجودہ امریکی حکومت اپنے عوام کو باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ روزگار کے تحفظ میں یہ قدم اٹھا رہی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ کے دوران امریکہ کی کوشش ہے کہ ہندوستان بھی ایک مضبوط معاشی قوت بن کر مستقبل میں اس کا حریف نہ ثابت ہو۔
اگرچہ امریکہ اور بھارت کے تعلقات یو پی اے کے دوسرے دورِ حکومت کے بعد سے کافی مستحکم ہوئے تھے ،دفاعی معاہدے، ٹیکنالوجی کا اشتراک ، تعلیم اور تحقیق کے شعبوں میں باہم ربط اور سیاسی سطح پر بڑھتی قر بت خصوصاً وزیر اعظم مودی کے امریکی صدور براک اوباما اور ڈونالڈ ٹرمپ سے ذاتی مراسم اس بات کے ثبوت تھے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آتے جا رہے ہیں۔ مگر ٹیرف کے معاملے نے سرد مہری کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اس دوران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ انہوں نے پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد چلائے جا رہے آپریشن سندور کے دوران ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ رکوانے کے لئے ثالث کا کردار ادا کیا اور ٹیرف کو دونوں ممالک کے خلاف دبائو کے طور پر استعمال کیا ۔ اس کا جواب دیتے ہوئی وزیر خارجہ جے شنکر نے واضح کیا کہ جنگ بندی برہ راست ہندوستانی اور پاکستانی فوجی کمانڈروں کے درمیان بات چیت سے عمل میں آئی تھی۔ انہوں نے زور دیکر کسی ثالث یا امریکہ کی مداخلت کی تردید کی ۔ انہوں نے اس معاملے میں امریکی دعویٰ ماننے سے انکار کر دیا ۔اسکے باوجود صدر ٹرمپ بار بار موقع بے موقع اپنی بات دہراتے رہے ہیں اور ہر بار ہندوستان ان کے دعوے کی تردید کرتا رہا ہے۔
ہندوستان اور امریکہ میں موجودہ وقت میں 2024-25 کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 132 بلین امریکی ڈالر کی تجارت ہوتی ہے ۔ جس میں بھارت تقریباً 87 بلین ڈالر کا سامان امریکہ بھیجتا ہے۔ اس میں دوائیں ، زیورات اور جواہرات، ٹکسٹائلز، ریڈی میڈ کپڑے کیمکل ، آ ٹو پارٹس ،ٹیلی کمیونکیشن کے آلات اور سی فوڈ شامل ہیں ۔ اسی طرح ہندوستان امریکہ سے 45 ملین ڈالر کا سامان در آمد کرتا ہے، جس میں کروڈ آئل، پیٹرولیم مصنوعات اور کوئلہ شامل ہے۔ اس طرح ابھی تک ہندوستان کو تجارت میں برتری حاصل ہے اور تقریباً 42 ملین ڈالر سرپلس بزنیس ہے۔ لیکن اس میں پچاس فیصد ٹیرف لگنے کے بعد تخفیف کا امکان ہے۔ امریکہ میں کپڑوں ،زیورات، سی فوڈ وغیرہ کی قیمتیں بڑھنے سے در آمد میں کمی آ سکتی ہے۔ سب سے زیادہ ٹکسٹائل اور ریڈیمیڈ کپڑے بر آمد کئے جاتے ہیں، اس میں رخنہ پڑنے پر اگر بیس فیصد کمی بھی آتی ہے تو اس کا سیدھا اثر کاخانوں پر پڑے گا اور15 ملین روزگار خطرے میں پڑ سکتے ہیں، اسی طرح زیورات، قیمتی پتھروں اور انجینئرنگ کے سامان کی مانگ میں کمی آنے پر لاکھوں مزید لوگ بے روزگار ہو سکتے ہیں ۔ سب سے زیادہ اثر چھوٹی اور درمیانی صنعتوں پر ہو گا کیوں کہ ان کے وسائل محدود ہیں ۔حالانکہ دوائیں، سیمی کنڈکٹر اور الیکٹر ک کا ساما ن وغیرہ ابھی ٹیرف سے مستثنیٰ ہیں، لیکن صدر ٹرمپ ان پر بھی ٹیرف لگانے کی دھمکی دے چکے ہیں ۔ ان حالات میں ہندوستان کی معیشت کو مستحکم رکھنے اور ٹیرف کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے کئی سطحوں کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس میں اولیت مذاکرات اور سفارتی کوششوں کو حاصل ہے ۔ اس کے علاوہ امریکہ پر انحصار کم کرنے کے لئے دوسرے اہم بازاروں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ برطانیہ ، جاپان ، جرمنی ، جنوبی کوریا ، فرانس ، کینڈا، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات وغیرہ میں ٹکسٹائل اور ریڈی میڈ کپڑوں کی بر آمدات کے امکان تلاشے جا رہے ہیں۔ تجاری اور صنعتی تیظیمیں اور سفارتی مشن اس کے لئے کوشاں ہیں ، حکومت جی ایس ٹی کی شرح کم کرنے اور طریقہ آسان بنانے کی کوشش کر رہی ہے جس سے اندرونی مانگ میں اضافہ ہو سکے ۔ در آمد اور برآمد کے شعبوں کے لئے بینکوں کو مالی اعانت اور سود پر رعایت دینے پر غور کیا جا رہا ہے، اس کے علاوہ تجارت ڈالر کے بجائے مقامی کرنسی میں کرنے کے امکان تلاشے جا رہے ہیں ۔ چین کے ساتھ تعلقات معمول پر لا کر اور تجارت میں اضافہ کر کے امریکہ کے لئے مشکل پیدا کی جا سکتی ہے۔ ہندوستان میں حکمراں جماعت بی جے پی کے کچھ لیڈروں نے عوام سے امریکی کمپنیوں کے فاست فوڈ، کہلڈ ڈرنک اور دیگر برانڈ کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے ۔ حالانکہ یہ ایک جذباتی قدم ہے ۔ اپیل کامیاب ہونے پر دوہرے نتائج کا اندیشہ ہے۔ ایک تو یہ کہ کمپنیاں امریکی حکومت پر تعلقات کی بحالی کے لئے دبائو ڈالیں اور دوسرے یہ کہ بکری بند ہونے سے ان کمپنیوں کے لاکھوں ہندوستانی ملازمین بے روزگار ہو جائیں ۔ جہاں یہ معاملہ ملک کے لئے نئے چیلنج لے کر آیا ہے کہ ہم اسے خود کفیل بنانے اورنئے راستے تلاش کرنے میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ موقع در اصل ہماری معیشت کا امتحان ہے ۔
رابطہ۔9450191754,