گزشتہ دنوں کشتواڑ کے ٹھاکرائی علاقے میں رونما ہوئے المناک سڑک حادثے نے حادثات کی روک تھام کے تئیں حکام کی غیر سنجیدہ روش کا ایک بار پھر ثبوت دیاہے ۔خطہ چناب کے پہاڑی علاقوں کی دشوار گزار اور خستہ حال سڑکوں پرہر کچھ عرصہ کے بعد دلدوز سڑک حادثے کا رونما ہونا ایک معمول بن گیاہے، جس کے نتیجہ میں آج تک درجنوں قیمتی انسانی جانوں کو ضیاں ہوچکاہے جبکہ لوگوں کی اس سے کہیں زیادہ تعداد شدید زخمی ہو کر زندگی بھر کیلئے محتاجی کی زندگی بسر کرنے پرمجبور ہوگئے ہیں ۔ٹھاکرائی حادثہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس میں سترہ افراد لقمہ ٔاجل بن گئے جبکہ سولہ افراد موت و حیات کی کشمکش میں مبتلاءہیں ۔اس حادثے کی دو وجوہات بتائی جاری ہیں۔ ایک تیز رفتار ڈرائیونگ اور دوسری اوور لوڈنگ اور عینی شاہدین کاکہناہے کہ میٹاڈور گاڑی میں ضرورت سے زیادہ مسافر سوار تھے۔عام طور پرخطہ چناب اور خطہ پیر پنچال میں ٹریفک حکام کی طرف سے ائورلوڈنگ اور دیگر قوانین کی خلاف ورزی پر آنکھیں موندھ لی جاتی ہیں اور خاطی ڈرائیوروں کے خلاف صرف دکھاوے کی کارروائی کی جاتی ہے ۔ہر بار کی طرح اس بار بھی حکام اور سیاسی لیڈران یہاں تک کہ وزیر اعظم کی طرف سے اس حادثے پر دکھ درد کا اظہار کیاگیا اور غمزدہ کنبوں سے ہمدردی بھی ظاہر کی گئی لیکن اس سے نہ ہی تو خطہ چناب کے لوگوں کے دکھ درد کم ہوجائیں گے اور نہ ہی مستقبل میں حادثات کے خطرات دو ر ہو جائینگےبلکہ اس کیلئے عملی سطح پر اقدامات کرنے ہوں گے اور ان وجوہات کا تدارک کرناہوگا جواکثر حادثات کا مؤجب بنتے ہیں۔کئی سال قبل این سی کانگریس دورحکومت میں انہی سڑک حادثات کی روک تھام کیلئے سفارشات پیش کرنے کیلئے اسمبلی میں ایک ہائوس کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے ڈوڈہ ، رام بن اور کشتواڑ و اودھمپور اضلاع کے دورے کرکے ایک رپورٹ تیار کی، جس میں اس بات کی سفارشات کی گئی تھیں کہ کس طرح سے بڑھتے سڑک حادثات پر روک لگائی جاسکتی ہے تاہم حکام کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ آج ان سفارشات کو پیش ہوئے چھ سال بیت گئے ہیں مگر ان پر عمل درآمد تو دور کی بات کسی نے ان سفارشات کو زیر بحث لانے کی زحمت تک بھی گوارہ نہیں کی ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست جموں وکشمیر میں سالانہ لگ بھگ پانچ ہزار سڑک حادثات رونماہوتے ہیں جن میں ہر سال ایک ہزار سے زائد افراد لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔پوری ریاست میں سب سے خطرناک اور سب سے زیادہ حادثات خطہ چناب میں ہی رونماہوتے ہیں جس کیلئے ایک تو اس علاقے کی پرُ پیچ اور خراب سڑکیں ذمہ دار ہیں تودوسرے ائورلوڈنگ اور ٹریفک قوانین پر عمل نہ کرنا بھی اکثر حادثات مؤجب بنتاہے ۔چونکہ خطہ چناب میں پہاڑیاں کاٹ کاٹ کرسڑکیں تعمیر کی گئی ہیں اس لئے ڈرائیور کی معمولی سے کوتاہی بھی گاڑی کو کئی سو فٹ گہرائی میں دریائے چناب میں جانے سے نہیں روک سکتی اور پھر شدید گہرائی سے زخمیوں کو نکالنا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ ٹھاکرائی حادثہ میں بھی اگر مقامی نوجوانوں نے ہمت اور حوصلہ دکھا کر متعلقہ حکام کی امداد و اعانت نہ کی ہوتی تو شاید کئی اور زخمی دم توڑ چکے ہوتے۔حادثے کے فوری بعدہسپتال پہنچ کر زخمیوں کی عیادت کرنے ، مرنے والوں کے لواحقین کے حق میں ایکس گریشیاء کا اعلان کرنے اور زبان سے اظہار تاسف کرنے سے ان زخموں کا مرہم نہیں کیاجاسکتا جو حادثات کی وجہ سے لوگوں کو اُٹھانے پڑتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عملی سطح پر اقدامات کئے جائیں اور سڑک حادثات پر قابو پانے کیلئے نہ صرف چھ سال قبل پیش کی گئی ہائوس کمیٹی کی سفارشات کو عملایاجائے بلکہ موجودہ ضروریات کو دیکھتے ہوئے جہاں سڑکوں کی مرمت اور خطرناک جگہوں پر حفاظتی اقدامات کئے جائیں وہیں ٹریفک قوانین کی پاسداری کو بھی یقینی بنایاجانا چاہئے۔ یوں سمجھ لیا جائے کہ چناب کا موجودہ حادثہ حکام اور سماج کےلئے ایک انتباہ سے کم نہیں کہ اگر اس روش پر روک لگانے کی کوشش نہ کی گئی تو آنے والے ایام کتنے سخت ہوسکتے ہیں۔؟