چندروز قبل ڈوڈہ کے ٹھاٹھری علاقہ میں کئی مقامات پر بادل پھٹنے کے نتیجہ میں جو اندوہ ناک تباہی مچ گئی اورجس میں کئی رہائشی مکانات ڈھہ جانے کی وجہ سے8شہری جاں بحق ہوئے، موسمیاتی خطرات کے حوالے سےایک زبردست انتباہ ہے، جسے اگر سنجیدگی کے ساتھ نہ لیا گیا تو مستقبل میں کیا کچھ دیکھنے کا خدشہ ہے، اسکا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ ساری دنیا کے اندر بادل پھٹنے، سیلابی ریلے آنے اور زمین ڈھہ جانے کے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آ رہے ہیں ، جن کی وجہ سے بڑے بڑے ہولناک واقعات سامنے آتے ہیں، لیکن اب گزشتہ چند بروں سے ریاست جموںوکشمیر میں بھی وقفے وقفے سے ان قدرتی آفات کے اندوہناک نظارے دیکھنے کو مل رہے ہیں ۔ ٹھاٹھری کے واقعہ سے چند روز پہلے کشمیر کے ترال علاقہ اور شمالی کشمیر کے کپواڑہ ضلع میں بھی بادل پھٹنے سے سیلابی ریلے درپیش آئے ، لیکن اللہ کا کرم ہو اکہ اس میں کوئی انسانی جان ضائع نہ ہوئی، البتہ مال مویشیوں کی ہلاکتیں اور فصلوں کو زبردست نقصان ہوا۔ ظاہر بات ہے کہ قدرتی آفات کو روکنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے لیکن ان سے نمٹنے کے لئے انتظامی تیاریاں اور خاص کر عوام الناس کی تربیت کرنا ایک ایسا معاملہ ہے جس پر اس وقت ساری دنیا میں توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے قدرتی عمل کو روکنا بہت مشکل ہے اور شمسی دائرہ میں وقت وقت پر تبدیلیاں آنے کی وجہ سے موسمیاتی شدتوں میں بھی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں اور یہ پیش گوئیاں کی جارہی ہیں کہ ان حالات میں گرمیوں کے ایام کے دوران حدت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور سرد ایام میں سردیاں بڑھ جاتی ہیں ، جن کی وجہ سے بے وقت اور بے اندازہ بارشیں ہوسکتی ہیں۔ چونکہ ان کے مطابق فی الوقت دنیا اسی صورتحال سے گزر رہی ہے، لہٰذا متذکرہ نوعیت کی موسمی آفات کو کسی بھی مرحلے پر خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ کشمیر میںبادل پھٹنے کی وجہ سے 2014میں ہمیں تباہ کُن تاریخی سیلاب کا تجربہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے اربوں روپے کی املاک تباہ و برباد ہوگئیں۔ ماہرین نے اس صورتحال کے لئے موسمی حالات کے ساتھ اُن کو ائف کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جو انسان کے بنا کردہ ہیں اور جن میں جنگلات کی تباہی، آبگاہوں میں تجاوزات اور آبادیوں کے بے ترتیب اور غیر ذمہ دارانہ پھیلائو کے ساتھ ساتھ پہاڑی ڈھلانوں کو کاٹ کاٹ کر ہموار زمینوں کی تیاری کا عمل شامل ہے۔ یہ ایک مانی ہوئی حقیقت ہے کہ اس نوعیت کی کاروائیوں کے لئے سرکاری ذمہ داروں اور چٹکیوں میں دولت مند بننے کے خواہاں خود غرض لوگوں کے اشتراک ذمہ دار ہوتے ہیں، جنہیں عرف عام میں مافیا کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان مافیائوں نے اس وقت ساری دنیا کا ناک میں دم کر رکھا ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ریاست کے اندر بھی یہ طبقہ ہر سطح پر سرگرم ہے۔ خاص کر پہاڑی علاقوں میں ڈھلا نیں ہموار کرنے اور دریائوں اور ندی نالوں سے متصل زمینوں پر تجاوزات کا دور دورہ ہے، جس کا ذکر ٹھاٹھری دورہ کے دوران ایک ریاستی وزیر نے بھی کیا ہے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ایسے عناصر کی کاروائیوں پر روک لگانے کےلئے رائج نظام کو مستحکم کرکے ان کی سرگرمیوں کو ختم کیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ عوام الناس کو بھی قدرتی آفات سے نمٹنے کی وسیع پیمانےپر تربیت دینے کےلئے ایک ہمہ گیر پروگرام مرتب کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ یہ اقدامات آگ لگتے وقت کنواں کھودنے کے مترادف نہ ہوں بلکہ ہمارے سسٹم کا ایک حصہ ہو اور ایمر جنسی ختم ہونے کے ساتھ ہی اسکو لپیٹ کر رکھنے کی عادت ، جو ہمارا ایک خاصہ رہا ہے، کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ جموںوکشمیر ایک پہاڑی ریاست ہے لہٰذا اسکا ماحولیاتی تبدیلیوں کے اعتبار سے ہمیشہ خطرے میں رہنے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان تبدیلیوںکے اثرات کو کم کرنے کے لئے انسانی و انتظامی وسائل سے عاری بھی نہیں۔ ہاں! ایک مثبت طرز عمل اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ یقینی طور پر ٹھاٹھری جیسے اندوہ ناک حوادث کے امکانات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ فی الوقت اس حادثہ کے متاثرین کی بھر پور طریقے سے امداد واعانت کرنے اورمہلوکین کے پسماندگان کو رنج و الم کی فضاء سے باہر نکالنا ہماری ترجیح ہونی چاہئے۔ جو سرکار کے ساتھ ساتھ سماج کی بھی ذمہ داری ہے۔