ماجد مجید
دن بھر کیش کاؤنٹر پر مصروف نور انساء اچانک سکتے میں آگئی۔ کیش گنا۔ ٹوکن ٹٹولے ۔ رجسٹر کا معائنہ۔ چیکس اور گاہک کی تعداد۔ روزنامے میں برابر کا اندراج۔ کاؤنٹر چھانا ۔ کپڑے ٹٹولے ۔ ذہن مفلوج ۔ خشک ہونٹ زبان سے تر ۔ بار بار معائنہ ۔ پلکیں گر ائیں۔ ہاتھ ملے۔ سات ہزار غائب ۔ کہاں سے لاؤں۔ جواب طلبی پر اپنی نا اہلیت کا ثبوت ۔ وقعت میں کمی ۔ برانچ سے ہمیشہ کے لیے رخصت ۔ ایسے ہزاروں وسوسے نور انساء کے ذہن پر ہتھوڑے مارنے لگے ۔ وہ بار بار کاؤنٹر کی ہر چیز کا معائنہ کرنے لگی لیکن بے سود ۔ رنگت میں زردی پڑ گئی۔
کئی ایک ملازم اسکی حرکت تاڑ گئے۔ سامنے آگئے ۔ حال چال پوچھا ۔ پہلے وہ گھبرائی ۔ پھر سات ہزار غائب ہونے کی روداد سنائی۔ سب نے ڈھارس بندھائی ۔ مدد کو آئے ۔ سب چھانا ۔ دستاویز ہاتھ آئی ۔ ٹوکن نمبر 13 میں گڑبڑی پائی۔ چھ کے بجائے تیرہ ہزار پر تصدیق ۔ ماتھا ٹھنکا. لینے والا فاروق وانی ۔ چھان بین کر کے دستاویز دانش گاہ کے کسی پروفیسر سے فاروق وانی کے نام ارسال ہوئی ہے۔
فون پر پروفیسر سے رابطہ کروایا ۔ خیر و عافیت کے بعد ساری روداد سنائی ۔
پروفیسر نے ہمت بڑھائی اور کہا “فاروق وانی کوئی ایرا غیرا نہیں ۔ دیانت دار ہے اور دودھ کے کاروبار سے منسلک ہے۔ ہم اسی سے دودھ خرید لیتے ہیں ۔ آپ بے فکر رہیں میں فاروق وانی کو بتاؤنگا ”
“جی بہتر جناب ۔ اگر ہمیں بھی فاروق وانی کا رابطہ نمبر فراہم ہوجائے تو نوازش ہوگی”
نور انساء کہنے لگی۔
“جی کوئی بات نہیں میں آپ کو اس کا رابطہ نمبر بھیج دونگا ” پروفیسر نے کہا اور نور انساء کو رابطہ نمبر بھیجا۔ اتنے میں پروفیسر نے فاروق وانی سے رابطہ کیا اور چھ کے بجائے تیرہ ہزار کا واقع سنایا فاروق وانی نے تسلیم کیا اور بینک میں زیادہ بھیڑ اور اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے وہ زائد رقم بینک کو واپس نہ کر سکا۔ اس لیے معذرت خواه ہے اور اگلی صبح اولین فرصت میں زائد رقم بینک کو واپس کرنے کی یقین دھانی کرائی۔
پھر اگلے روز علیٰ الصبح اگرچہ فاروق وانی نے زائد رقم بینک کو واپس کر دی تاہم دوسری طرف پروفیسر کو نہ صرف دودھ بیچنا بند کر دیا بلکہ ہمیشہ کے لیے علیک سلیک بھی منقطع کر دیا۔
���
کشمیر یونیورسٹی،[email protected]