مختار احمد قریشی
بارش دھیرے دھیرے گلی کے کچّے فرش کو دھو رہی تھی۔ مٹی کی خوشبو میں ایک عجیب سا سکون تھا، مگر اس سکون میں بھی شہر کا شور، بھوک اور ادھورے خوابوں کی بدبو گھلی ہوئی تھی۔
ریحانہ گلی کے کونے پر چھوٹے سے ٹین کے شٹر کو نیچے کھینچ کر کھڑی تھی۔ وہ چاہتی تو اندر بیٹھ کر بارش کا لطف لیتی، مگر دکان کے اندر وہ سانس گھونٹنے والی نمی تھی جو دیواروں پر چپکی غربت کی طرح کبھی نہیں جاتی۔
اس کی عمر بتیس سال کے آس پاس تھی۔ آنکھوں کے گرد ہلکے سیاہ دائرے اور ہونٹوں پر وہی پرانی لالی — جو اب صرف یاد کے طور پر رہ گئی تھی۔ تین سال پہلے اس کا شوہر کہیں جا کے غائب ہوگیا تھا۔ کسی نے کہا، “دبئی چلا گیا”، کسی نے کہا “نئی عورت کے ساتھ رہتا ہے”… مگر حقیقت کوئی نہیں جانتا تھا، شاید وہ خود بھی نہیں۔
بارش تیز ہونے لگی تھی۔ ایک لڑکا، گیلی قمیض اور پھٹے ہوئے جوتے پہنے، بھاگتا ہوا آیا۔ ہاتھ میں دو روپے کا نوٹ تھا، جو بارش میں بھیگا ہوا تھا۔
“آپا… ایک سگریٹ دے دو۔”
ریحانہ نے نوٹ لیا، اور سگریٹ کا ڈبہ کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ لڑکا سگریٹ جلا کر کچھ دیر خاموش کھڑا رہا، پھر ہلکے سے بولا:
“آپ ہمیشہ ایسے کیوں لگتی ہیں جیسے رو کے بیٹھی ہوں؟”
ریحانہ چونک گئی۔ وہ لڑکے کو پہچانتی تھی، مگر اتنی باتیں کرنے کا وہ عادی نہیں تھا۔
“زندگی کبھی کبھی آئینے جیسی ہوتی ہے… ٹوٹ جائے تو جڑتی نہیں۔” اس نے دھیرے سے جواب دیا۔
لڑکا ہنسنے لگا، مگر ہنسی میں بھی ایک تھکن تھی۔
“آپا، آئینہ ٹوٹ بھی جائے نا… تو اس میں چہرہ پھر بھی دکھائی دیتا ہے۔ بس… ٹکڑوں میں۔”
ریحانہ نے لڑکے کو دیکھا — اور پہلی بار محسوس کیا کہ وہ شاید ٹھیک کہہ رہا ہے۔ زندگی کا آئینہ ٹوٹ بھی جائے، تو عکس مٹتا نہیں، بس بکھر جاتا ہے۔
بارش تھم گئی تھی۔ گلی میں کچّی مٹی کی مہک پھیل گئی، جیسے کسی نے پرانی یاد کو چھیڑ دیا ہو۔ ریحانہ نے سگریٹ کا دھواں چھت کی طرف چھوڑا اور سوچا — شاید وقت کے ساتھ آئینے کے کچھ ٹکڑے پھر سے جُڑ سکتے ہیں… اگرچہ جوڑنے والے ہاتھ اکثر خود کٹ جاتے ہیں۔
���
اوڑی بارہمولہ، کشمیر
موبائل نمبر؛8082403001
[email protected]