رچرڈ گرے
واش روم میں موجود ہمارے ٹوتھ برش میں مختلف بیکٹیریا، وائرس اور فنگل انفیکشن بآسانی پروان چڑھ سکتے ہیں۔ لیکن کچھ طریقے ایسے ہیں جن سے آپ اپنا ٹوتھ برش کسی حد تک صاف رکھ سکتے ہیں۔ٹوتھ برش کو ہم منھ اور دانتوں کی صفائی ستھرائی کے لیے استعمال کرتے ہیں تاہم ہم میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس میں ایک چھوٹا سا آلودہ ماحولیاتی نظام پنپ رہا ہوتا ہے۔ٹوتھ برش کے گھِسے ہوئے ریشے ایک خشک جھاڑی دار زمین کی طرح ہیں، جو دن میں چند بار پانی سے تر ہو جاتی ہے اور یوں یہ ایک ایسی دلدل بن جاتی ہے جس میں غذائیت کی بہتات ہوتی ہے۔ پلاسٹک کے ریشوں کے درمیان لاکھوں جاندار پنپ رہے ہوتے ہیں۔ایک وقت میں آپ کے ٹوتھ برش پر اندازاً دس لاکھ سے بارہ لاکھ تک سینکڑوں مختلف اقسام کے بیکٹیریا اور فنگس موجود ہوتے ہیں۔ اُن کے ساتھ بے شمار وائرس بھی شامل ہوتے ہیں۔یہ تمام جاندار برش کی بیرونی سطح پر حیاتیاتی تہہ (یعنی بائیو فلم) کی شکل میں جم جاتے ہیں یا برس میں موجود دراڑوں میں جمع ہو جاتے ہیں۔روزانہ پانی، تھوک اور منھ میں موجود کھانے کے ذرات کے ذریعے ان جراثیموں کو نشوونما کے لیے سب کچھ دستیاب ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھار ان میں نئے جراثیم بھی شامل ہو جاتے ہیں مثلاً بیت الخلا کے فلش سے اُڑ کر آنے والے یا کھڑکی کھلنے پر ہوا کے ساتھ پہنچنے والے ذرات۔تو کیا آپ کو اپنے ٹوتھ برش کی صفائی کے بارے میں زیادہ فکرمند نہیں ہونا چاہیے؟ سائنسدانوں اور دانتوں کے ڈاکٹروںنے یہ تحقیق کی کہ ہمارے ٹوتھ برش پر دراصل کس نوعیت کے اور کتنی قسم کے جراثیم ہو سکتے ہیں، ان جراثیموں سے ہماری صحت کو کیا خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اور ہمیں اپنے دانت صاف کرنے والے اس برش کو کس طرح صاف رکھنا چاہیے۔جرمنی کی رائنویل یونیورسٹی آف اپلائیڈ سائنسز کے مائیکرو بائیولوجسٹ مارک کیوِن زِن کے مطابق، ٹوتھ برش پر موجود جراثیم بنیادی طور پر تین ذرائع سے آتے ہیں۔ان کے مطابق یہ تین ذرائع برش استعمال کرنے والے کا منھ، اُن کی جلد اور وہ ماحول ہے جہاں برش رکھا جاتا ہے۔ استعمال شدہ ٹوتھ برش پر پائے جانے والے زیادہ تر جراثیم نقصان دہ نہیں ہوتے، ان کی اکثریت ہمارے اپنے منھ سے آتی ہے۔ جب بھی ہم برش منھ میں ڈالتے ہیں، اس کے ریشے روتھیا ڈینوکیروسا، سٹریپٹوکوکیسیا میٹس اور ایکٹینومائسس جیسے جراثیم کو جمع کر لیتے ہیں۔ یہ جراثیم ہمارے منھ میں پائے جانے والے عام، بے ضرر رہائشی ہیں۔ کچھ جراثیم تو فائدہ مند بھی ہوتے ہیں کیونکہ وہ دانتوں کو گلانے والے دوسرے جراثیموں سے حفاظت میں مدد دیتے ہیں۔لیکن ان کے درمیان کچھ ایسے ’مسافر‘ بھی ہوتے ہیں جو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
ٹوتھ برش کو جراثیم سے پاک کرنے کے بے شمار طریقے تجویز کیے گئے ہیں، مثلاً الٹرا وائلٹ روشنی کا استعمال، ڈش واشر یا مائیکرو ویو میں رکھنا وغیرہ ان میں سے چند ہیں۔ مائیکرو ویو عام طور پر مؤثر سمجھا جاتا ہے، مگر اس سے برش کے ریشے پگھلنے یا خراب ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔جو ٹوتھ پیسٹ آپ استعمال کرتے ہیں، اس میں عموماً جراثیم کش اجزا ہوتے ہیں جو برش پر موجود مائیکروبز کی تعداد کم کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ برش کو پانی سے دھونا بھی کچھ بیکٹیریا کو بہا دیتا ہے، لیکن بہت سے جراثیم پھر بھی چمٹے رہتے ہیں۔کچھ محققین کے مطابق ایک فیصد سرکے (وائنیگر) کا محلول بیکٹیریا کم کرنے کا سب سے مؤثر طریقہ ہے، لیکن اس سے برش پر ایسا ذائقہ رہ جاتا ہے جو اگلی بار برش کرتے وقت ناگوار لگ سکتا ہے۔ برش کے ہیڈ یعنی سر کو اینٹی سیپٹک ماؤتھ واش میں پانچ سے دس منٹ تک بھگونا بھی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔پیدرازی مشورہ دیتے ہیں کہ ماؤتھ واش کے ایسے محلول میں برش صاف کیا جائے جس میں 0.12 فیصد کلورہیکسیڈین یا 0.05 فیصد سیٹائل پائرِڈینیم کلورائیڈ موجود ہو۔پرانے برش جن کے ریشے گھِس چکے ہوں، ان پر زیادہ بیکٹیریا، نمی اور غذائی اجزا جمع ہو جاتے ہیں جو ان کی افزائش کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ماہرین تقریباً ہر تین ماہ بعد برش تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو اور بھی جلدی اپنا ٹوتھ برش بدل لینا چاہیے۔ تحقیق سے بھی معلوم ہوا کہ برش پر بیکٹیریا کی تعداد تقریباً 12 ہفتوں کے بعد سب سے زیادہ ہوتی ہے۔کچھ محققین اب ایک مختلف طریقے پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ایسے ٹوتھ پیسٹ پر کام کر رہے ہیں جو مفید بیکٹیریا کی افزائش کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ پروبائیوٹک ٹوتھ پیسٹ دراصل ایسے ’دوست‘ بیکٹیریا کی نشوونما کو بڑھاتے ہیں جو منھ کی صحت کے لیے فائدہ مند سمجھے جاتے ہیں۔زِن کے مطابق ایسے تصورات جیسے پروبایوٹک کوٹنگ یا بائیوایکٹو ریشے والے برش مستقبل میں صحت مند مائیکروبز کے توازن کو فروغ دینے کے جدید طریقے ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس طرح برش بیماری کے بجائے حفاظت کا ذریعہ بن جائے گا۔تاہم وہ خبردار بھی کرتے ہیں کہ اس شعبے میں
ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔(بی بی سی)