بلال فرقانی
سرینگر// جل جیون مشن کے تحت ہر گھر جل کے نعرے پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے شہر کے کنٹونمنٹ علاقوں میں گزشتہ ایک ہفتے سے پینے کے پانی کی قلت کے نتیجے میں اتوار کو احتجاج ہوا ۔مظاہرین نے متنبہ کیا کہ اگر پانی کی سپلائی کو بحال نہیں کیا گیا تو وہ شاہراہ پر دھرنا دینے کیلئے مجبور ہوجائیں گے ۔ اتوار کی دوپہر کوشیو پورہ علاقے میں مقامی لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے جل شکتی محکمہ کے خلاف نعرہ بازی کی۔ مظاہرین میں خواتین بھی شامل تھیں۔
انہوںنے خالی برتن لیکر نعرے بلند کئے۔ مظاہرین نے کہا کہ گزشتہ15روز بالخصوص عید سے انہیں پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اورمحکمہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے۔مقامی مسجد کے امام نے اس موقعہ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عید سے قبل بھی انہوں نے احتجاج کیا تھا،جس کے بعد مقامی ایس ایچ او نے ثالثی کرتے ہوئے متعلقہ محکمہ کے افسروں سے انہیں ملاقات کرائی اور انہوں نے ایک ہفتہ میں یہ مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔تاہم عید سے پورا علاقہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس رہا ہے۔ مظاہرین میں شامل سماجی کارکن خالد طفیل نے کہا کہ جب بھی وہ متعلقہ افسروں سے ملنے جاتے ہیں تو انہیں یہ کہہ کر واپس کیا جاتا ہے کہ سینئر افسر دفتر میں موجود نہیں ہیں۔ مظاہرین نے دھمکی دی کہ اگر پانی کی سپلائی کو بحال نہیں کیا گیا تو وہ بچوں سمیت شاہراہ کو بند کریں گے۔
اس دوران بٹوارہ کے لوگوں نے بھی محکمہ پرالزام عائد کیا کہ انہیں پانی کی ایک ایک بوند کیلئے ترسایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں کھانا پکانے کیلئے بھی دریا کا رخ کرکے پانی لانا پڑتا ہے۔ مشتاق احمد نامی ایک شہری نے بتایا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے علاقے میں پانی کی قلت کی وجہ سے وہ ذہنی اضطراب کا شکار ہیں اور عید کے روز بھی انہیں دریا سے ہی پانی لانا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ محکمہ کے افسروں کی بار بار یقین دہانی کے باوجود بھی پانی کی قلت کو دور نہیں کیا گیا۔ مقامی لوگوں نے احتجاج کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ محکمہ کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے۔ اندرا نگر اور اقبال کالونی کے علاوہ یتو محلہ اور ڈار محلہ کے لوگوں نے بھی پینے کے پانی کی قلت کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جس اسکیم ٹنگنار سے پانی کی سپلائی فراہم کی جاتی ہے، اس کے لیفٹنگ موٹر خراب ہوگئے ہیں،جس کے نتیجے میں 30ہزار کی آبادی کو پانی کی سپلائی میں خلل پڑ گیا ہے۔
انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ کب تک اس اسکیم کے موٹروں کی مرمت کی جائے گی اور کیا تب تک لوگوں کو پانی کیلئے اسی طرح ترسنا پڑے گا۔لوگوں نے اعلیٰ حکام سے اپیل کی کہ ایک طرف جہاں اس بات کا دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سرینگر میں جل جیون مشن کے تحت صد فیصد لوگوں کو نل سے جل کی سہولیات فراہم کی گئی ہے وہیں دوسری جانب گزشتہ15روز سے30ہزار کی آبادی کو کیوں پانی کی معقول سپلائی فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔اس سلسلے میں ایگزیکٹو انجینئر جل شکتی سرینگر بشیر احمد نے بتایا کہ انہیں اس معاملے کا پہلے ہی علم ہے۔انہوں نے بتایا کہ معاملہ چیف انجینئر کی نوٹس میں لایا گیا ہے،جو پیر کو تمام پہلوئوں کا جائزہ لیںگے اور اس کے بعد ہی صورتحال میں بہتری آسکتی ہے۔ایگزیکٹو انجینئر نے کہاکہ چونکہ اس اسکیم کی تقسیم کاری کا کام انکے دائرے میں آتا ہے جبکہ دیکھ ریکھ اور مرمت میکنکل ڈویژن کے دائرے میں آتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بیشتر مقامات پر دو اسکیموں کو آپس میں جوڑدیا گیا ہے اور جب ایک اسکیم میں کوئی خرابی پیدا ہوتی ہے تو اس کا اثر دوسری اسکیم پر بھی پڑتا ہے۔ بشیر احمد نے بتایا کہ وہ ٹینکروں کے ذریعے پانی کی قلت کو کچھ حد تک دور کرسکتے ہیں تاہم ٹینکروں سے پانی کی رسائی متبادل نہیں ہے۔