ریاست میں ٹریفک حادثات کی شرح میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ خوفناک حد تک اضافہ ہورہا ہے اور شائد ہی کوئی ایسا دن ہو جب کسی دلدوز سڑک حادثے کی اطلاع میڈیا کے توسط سے سامنے نہ آرہی ہو۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ یہ صورتحال ملک بھر میں بنی ہوئی ہے اور ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ حادثات میں ہونے والے جانی نقصانات فی الوقت غیر طبعی اموات کی ایک بڑی وجہ بنے ہوئے ہیں۔ ریاست جموں وکشمیر میں بھی یہ حالت کچھ مختلف نہیں۔ رواں برس کے پہلے سات ماہ میں تین ہزار سے زائد سڑک حادثات رونما ہوئے ہیں جن میں 464افراد ہلاک اور 3763زخمی ہوگئے۔ گزرے دو ماہ کا عرصہ اس میں شامل کیا جائے تو ہلاکتوں کی تعداد پانچ سو تک پہنچ جاتی ہے جبکہ زخمیوں کی تعداد میں بھی اسی شرح سے اضافہ ہوا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے ریاست کے اندر گاڑیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اکثر سڑکیں اور شاہرائیں گنجان ہوگئیں ہیں اور ڈرائیو کرنے والے اکثر حضرات وقت کی کمی کا ازالہ کرنے کے لئے تیز رفتار ڈرائیونگ کا سہارا لیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ٹریفک قواعد کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہیں، جو حادثات کا سبب بن رہا ہے۔ آج ریاست کے دونوں دارالحکومتی شہروں سرینگر اور جموں کے علاقہ قصبہ جات میں تیز رفتاری اور قواعد و ضوابط کے خلاف ڈرائیورنگ کا سلسلہ ایک روز مرہ کا امر بن چکا ہے اور ہر شخص اس دوڑ میں دوسرے سے آگے نکلنے پر مصر نظر آتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ لین کٹنگ کی بدعت اور خلافِ سمت ڈرائیونگ سے اچھے خاصے اور قواعد کے پابند رہنے والے ڈرائیوروں کو بھی ہمیشہ خطرات کا سامنا لگا رہتا ہے، بلکہ متعدد حادثات ان ہی وجوہات کی بنا پر سامنے آرہے ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ محکمہ ٹریفک کی نفری سڑکوں پر نہیں ہوتی، لیکن افرادی قوت کی کمی کے بہ سبب اُنہیں ٹریفک سنبھالنے کو اولیت دینا پڑتی ہے، جس کی وجہ سے وہ خلاف ورزی کنندگان کی سرکوبی کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔ محکمہ ہٰذا زیادہ سے زیادہ غلط پارک کی گئی گاڑیوں کو اُٹھانے یا کاغذات وغیرہ کی ناقصی کی بنیاد پر جرمانے ٹھونکنے کے عمل کو ترجیح دے رہی ہے، جبکہ ٹریفک قواعد کی دھجیاں اُڑا کر ایک خطرناک صورتحال، جو بیش تر حادثات کا سبب بن رہی ہے، کا مؤجب بننے والی اکثریت کسی قسم کی تادیبی کارروائی سے بچ کر نکل جاتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو سڑکوں پر نابالغوں کی جانب گاڑیاں اور بائیکیں دوڑانے کے مناظر جابجا نظر نہیں آتے اور نہ ہی مخالف سمتوں سے ڈرائیونگ کے واقعات، جو ایک عام بات بننے لگی ہے، دیکھنے کو ملتے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دو پہیہ چلانے والے 50فیصد کے قریب افراد حفاظتی ہیلمٹوں کے بغیر ہوتے ہیں۔ سڑکوں پر حکومت کی جانب سے ڈرائیورنگ کی متعینہ رفتار کا کوئی پاس و لحاظ نہیں کیا جاتا ہے۔ اور تو اور ڈرائیونگ کے دوران موبائل فونوں کا استعمال ایک عام بات بن گئی ہے۔ ریاستی اسمبلی نے اس صورتحال کو بھانپتے ہوئے چند برس قبل ایک ہائوس کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے مفصل تحقیقات و مباحث کے بعد سرکار کو اپنی سفارشات پیش کرکے ایک ٹریفک ریگولیٹری اتھارٹی قائم کرنے کے لئے کہا تھا۔ تاکہ لائسنسوں کی اجرائی سے لیکر قواعد شکنی کے خلاف کارروائی اور شاہراہوں و سڑکوں پر ٹریفک کی آواجاہی کے حجم کو معقولیت عطا کرنے کے سارے امور ایک ہی چھت کے تلے انجام پذیر ہوں۔ ان سفارشات کا کیا ہوا اور کیا ان پر عملدرآمد کرنے کے لئے کوئی ڈھانچہ تشکیل دینے کی کوشش ہورہی ہے، اس کے بارے میں کچھ پتہ نہیں۔ فی الوقت جو صورتحال بنی ہوئی ہے اُسے اگر لاقانونیت کے قریب قرار دیا جائے تو غالباً غلط نہ ہوگا۔ اگر مستقبل میں اس رجحان کو مزید فروغ ملتا ہے تو حکومت کے لئے صورتحال کو سنبھالنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بن جانے کا خطرہ ہے۔ فی الوقت ضرورت اس امر کی ہے کہ لائسنسوں کی اجرائی میں ضوابط پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے اور سڑکوں پر قواعد کی خلاف ورزی کے رجحان کے خلاف سخت رویہ اختیار کیا جائے۔اس کے لئے ذمہ دار محکموں کو اپنا محاسبہ کرکے ایک تعمیری اور مثبت سماج کی پردافت میں متعینہ رول ادا کرنے کو اولیت دی جانی چاہئے اور اپنی صفوں کے اندر بدعنوانی کے رجحان کا خاتمہ کرنے کے لئے مثبت اور مربوط کوششیں کرنی چاہئیں۔ سماجی سطح پر بھی متعلقین کو اس حوالے سے بیداری کی مہم چلانی چاہئے کیونکہ ان حادثات کی وجہ سے جو گھرانے براہ راست یا بلواسطہ متاثر ہوتے ہیں، وہ اسی سماج کا حصہ ہیں۔