وادی کشمیر میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سڑک حادثات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اسی عنوان سے ان حادثات میں ہلاک ہونے والوں اور زخمیوں کی فہرست طویل ہوتی جارہی ہے ۔ غالباً ہی ایسا کوئی دن گزرتا ہے جب حادثات میں کسی شہری کی شمع حیات گُل نہ ہوتی ہو اور اس طرح کنبوں کے کنبے تباہ نہ ہوتے ہوں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور اس پر قابو پانے میں ہم ناکام کیوں ہو رہے ہیں، یہ ایسے سوالات ہیں، جن کی جانب نہ تو سرکاری سطح پہ اور نہ ہی سماجی سطح پر کوئی توجہ مرکوز ہو رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ریاست میں سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیوں اور دو پہیوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے اور بدلتے سماجی و اقتصادی حالات میں وہ گاڑی جو کبھی آسودہ حالی کی علامت سمجھی جاتی تھی، ضروریات زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائےتو مستقبل میں ان کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ ٹرانسپورٹ کا پھیلائو ایک مرکب نظام کا حصہ ہوتا ہے، جس میں حسب ضرورت سڑکوں و شاہراہوں کی تعمیر اور ٹریفک کے قواعد و ضوابط پر عمل آوری کا انتظام ایک بنیادی حصہ ہوتا ہے۔ مگر ہماری ریاست میں ان دو محازوں میں حد سے زیادہ عدم تناسب نظر آتا ہے۔پہلے سے موجودسڑکوں کی کشادگی اور نئی سڑکوں کی تعمیر کےلئے اگر چہ کئی پروجیکٹوں پر کام چل رہاہے مگر جس تناسب سے گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، ان تعمیراتی پروجیکٹوں پر ہو رہے کام کی رفتار اُس رفتار رسے دور دور تک مطابقت نہیں رکھتی۔ سب سے بڑی اور اہم بات ٹریفک قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں میں بے اندازہ اضافہ ہے، جو ان حادثات کی ایک اہم وجہ ہے۔ تیزرفتاری ، ایک دوسرے پہ سبقت لینے کی جلدبازی میں رانگ سائیڈ سے ڈرائیونگ اور مخالف سمت سے گاڑیاں چلا نا عام مناظر ہیں، جنہیں دیکھتے وقت راہگیروں کے دل دہل اُٹھتے ہیں۔ اسکے ساتھ سڑکوں پر تجاوزات بھی شہروں اور قصبہ جات میں حادثات کی ایک وجہ ہیں۔ روزمرہ بنیادوں پر پیش آنے والے حادثات کی پشت پر موجود وجوہات کو سنجیدگی کے ساتھ سمجھ کر حل کرنے کی کوشش کرنے کی بجائے کام چلائو رویہ معیارٹھہرگیا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کا عمل، جو کسی زمانے میں جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا، درمیانہ داری کے ایک طویل سلسلہ کے بہ سبب مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ آج سڑکوں پر چھوٹے چھوٹے اور نابالغ بچوں کو گاڑیاں دوڑاتے ہوئے دیکھنا کوئی عجوبہ نہیں ہے۔ اور تو اور ٹریفک پولیس کی نظروں کے سامنے فاسٹ ڈرائیورنگ اور ٹریفک قوانین کی دھجیاں اُڑانا ایک معمول بن گیا ہے لیکن محکمہ، جو پہلے ہی نفری کی قلت کا شکار ہے، عیاں وجوہ کی بنا پر یہ سلسلہ روکنے میں کامیاب نہیں ہوپارہا ہے۔ انتظامیہ جب تک اس محکمہ کا سنجیدگی کے ساتھ پوسٹ مارٹم نہ کرے تب تک کسی قسم کے سدھار کی توقع رکھنا عبث ہے۔ یہی معاملہ ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا بھی ہے، جہاں لائسنسوں کی اجرائی اور گاڑیوں کے اجازت ناموں کے حوالے سے مؤثر پالیسی کا بھر پور فقدان ہے۔ ریاستی اسمبلی کی جانب سے ٹریفک حادثات کی روک تھام کے حوالے سے قائم کی گئی ہائوس کمیٹی نے صورتحال کا مفصل جائزہ لینے اور کافی غور خوص کرنے کے بعد حکومت کوکئی سفارشات کے ساتھ اپنی تفصیلی رپورٹ پیش کی تھی۔ ہائوس کمیٹی نے سب سے اہم سفار ش یہ کی کہ ریاست میں نظام ٹریفک سدھارنے کیلئے فوری طور پر ’’ٹریفک ریگو لیٹری اتھارٹی‘‘ قائم کی جائے، جو ایک ہی چھت کے نیچے کام کرے۔ اسکے علاوہ ہائوس کمیٹی کی رپورٹ میں مزید ٹریفک پولیس چوکیاں قائم کرنے، مختلف مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے ،خصوصی ٹریفک سکارڈ تعینات کرنے ، ڈرائیونگ سیکھنے کیلئے جدید اسکولوںکے قیام جیسی تجاویز شامل ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ تجاویز مکمل طور پر صورتحال کا جائزہ لینے اور ماہرین کے ساتھ صلح و مشورہ کرنے کے بعد ہی پیش کی گئی ہوںگی اور ان پر عمل درآمد ہوجانے سے صورتحال میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ لیکن المیہ تو یہ ہے کہ یہاں سرکاری سطح پر ہر کام سست رفتاری کے ساتھ ہورہا ہے۔ اگرحکومت اور متعلقہ محکموں کے پاس ان تجاویز کو عملانے کا منصوبہ بھی ہوگا لیکن نہ معلوم اس منصوبے کی عمل آوری تک کتنی مزید انسانی زندگیاں ٹریفک حادثات کی نذر ہوجائیں گی۔ اس کے علاوہ شاہرائوں کی تنگ دامانی، ٹریفک دبائو میں روز افزوں اضافہ، بڑے پیمانے پر قوانین کی خلاف ورزی ، عوام میں ٹریفک قوانین سے متعلق نا واقفیت اور محکمہ ٹریفک میں افرادی قوت کی کمی جیسے مسائل سنجیدگی کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہےاور یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے اگر حکومت ان مسائل کو حل کرنے کی ٹھان لے اور سنجیدگی کے ساتھ فوری اور دور رس تنائج کے حامل اقدامات کرتی ہے تو مستقبل میں صورتحال میں بہتری کی اْمید کی جاسکتی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ٹھان تو لے۔میسر اعداد وشمار سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ ٹریفک حادثات اس وقت ریاست میں غیر طبعی اموات کا سب سے بڑا باعث ہے۔