شبیر بٹ
ہمارے یہاں ٹریفک جام کا مسئلہ آئے روز بڑھتا ہی جارہا ہے ۔اس ٹریفک جام کی وجہ سے عوام و خواص دونوں کو کافی زیادہ پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ تا ہے، اتنا ہی نہیں بلکہ یہ ٹریفک جام کبھی کبھار کسی کے لئے جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے ۔اس ٹریفک جام کے کئی وجوہات ہو سکتے ہیں مگر ایک بہت بڑی وجہ ہماری غلط پارکنگ ۔ہمارا غرور ،گھمنڈ اور جہالت ہے ۔اب تو یہ ٹریفک کا مسئلہ قومی مسائل میں اہمیت اختیار کرتا جارہا ہے ۔بلکہ سیانے کہتے ہیں کہ گر کسی قوم کے مزاج کا اندازہ لگانا ہو تو اسے کھانے کے مواقعوں اور سڑکوں پر اس کی ٹریفک کو دیکھ لیںاور خوش قسمتی سے ہمارے ہاں ان دونوں مقامات پر قومی خراج کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
آج کل پیدل چلنا معیوب سمجھا جا رہا ہے، اگرچہ ڈاکٹر صاحبان اکثر لوگوں کو واک کرنے کی نصیحت کرتے رہتے ہیں لیکن ہم اس واک کے لئے بھی آدھا راستہ گاڑی میں ہی طے کرنا پسند کرتے ہیں ۔ہمیں گھر سے سو میٹر دور دودھ،روٹی یا اور کوئی سودا سلف لانا ہو تو ہم گاڑی کو اسٹارٹ کرتے ہیں ۔ جو کام پیدل جاکے دس منٹ میں ہوسکتا تھا ،اسی کام کو انجام دینے کے لئے ہم گاڑی میں بیس منٹ لگا دیتے ہیں ۔ہم اپنی گلی اپنے محلے،گائوں اور اپنے شہر کی سڑک کو وراثت سمجھ بیٹھتے ہیں اور اپنی گاڑی کو وہاں غلط پارک کرکے سمجھتے ہیں جیسے ہم نے ظاہر دار بیگ کی طرح وارث ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیچ سڑک میں مخالف سمت سے آنے والے دو ڈرائیور صاحبان اپنی اپنی ڈرائیونگ سیٹ پر ایک دوسرے کے ساتھ محو گفتگو ہے اور اس پر طرہ یہ کہ پیچھے سے ہارن بجانے والے کو غیر مہذب اور بے صبر کے القاب سے نوازتے ہیں ۔کئی سر پھیرے لونڈے اور خود کو چالاک دہر سمجھنے والے جب ٹریفک جام کی لمبی قطار دیکھتے ہیں تو اپنی چالاکی اور آوارگی کا مظاہرہ کرکے لائن کو کاٹ کر آگے نکل جاتے ہیں اور عوام کی پریشانیوں میں مزید اضافے کا سبب بن جاتے ہیں ۔
جب کوئی شخص خاص کر کوئی بارسوخ اور بڑا آدمی گائوں اور شہر کی سڑکوں پر کمپلکس اور کوٹھیوں کی تعمیر کے لئے باجری،اینٹ وغیرہ جیسا مٹیریل سڑکوں پہ ڈال کے ٹریفک جام کا سبب بن جاتے ہیں تو سب کا ضمیر اور شعور Casual leave پر چلا جاتا ہے اور ایڈمینسٹریشن بھی جیسے کومہ میں چلی جاتی ہے ۔
ہمارے یہاں ایک اور چیز اکثر دیکھنے کو ملتی ہے ۔مالک مکان ہو یا دکاندار، دیوار اور تعمیر کے وقت ہم ایک انچ بھی سڑک کی طرف نہیں چھوڑتے ہیں مگر تعمیر کے بعد اپنے دکان اور دیوار کے ساتھ بڑے بڑے پتھر اور رکاوٹیں ڈال کر جتلاتے ہیں کہ یہ ہمارا پیدائشی حق ہے ۔گلی کوچوں میں یہ عمل بھی ٹریفک میں خلل ڈالنے کا سبب بن جاتا ہے ۔
سودا سلف خریدتے وقت اکثر لوگ بازاروں میں ہر دوکان پر جاتے جاتے گاڑی کو بھی ساتھ لئے چلتے ہیں حالانکہ وہ گاڑی کو کسی معقول جگہ پر پارک کرکے بھی یہ کام انجام دے سکتے ہیں ۔اس کے علاوہ کئی جگہوں پر میونسپل کارپوریشن کے تحت آنے والے چیک پوسٹ بھی اس ٹریفک جام کا بہت بڑا سبب بن جاتا ہے ۔یہ چیک پوسٹ والے بیچ سڑک میں گاڑی کو روک کر ان کے ساتھ مول بھاو کرتے رہتے ہیں اور پیچھے گاڑیوں کی لمبی قطار کھڑی ہوجاتی ہے اور دیکھتے دیکھتے یہ جام کی صورت اختیار کر جاتی ہے ۔کاش ان چیک پوسٹس کا انتخاب کرتے وقت مناسب مقامات کا بھی خیال رکھا جاتا تاکہ عوام الناس کو راحت مل جاتی ۔ اکثر یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ میونسپل کارپوریشن کے جے ۔سی ۔بی اور بڑی گاڑیاں بھی بیچ سڑکوں پر کوڈا کرکٹ اٹھاتے وقت اس ٹریفک جام میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔اس بات سے ہر کوئی متفق ہےکہ ایمبولینس گاڑیوں کو ہر صورت میں جگہ چھوڑنی چاہیے مگر ان ایمبولینس گاڑیوں کا معمول بن چکا ہے ایمرجنسی نہ بھی ہو ۔گاڑی میں مریض ہو یا نہ ہو، جب بھی یہ سڑکوں پر چلتی ہے تو سائرن بجاتے ہوئے چلتی ہے تاکہ جلدی سے راستہ مل جائے ۔اگر یہی صورت حال رہی تو ایمبولنس کی سائرن بھی مشکوک ہو جائے گی ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ گاڑیاں بھی اکثر ٹریفک جام کا سبب بن جاتی ہیں جو نہ صرف ٹریفک کے قوانین بلکہ سارے قوانین کو روندتے ہوئے چلتی ہیں اور کوئی اُف تک نہیں کر سکتا ہے کیونکہ وہ قانون کے پاسدار ہوتے ہیں ۔غرض کبھی کبھار قانون بھی غیر قانونی حرکتیں کرکے ہارن بجانے پر مجبور کرتا ہے ۔
<[email protected]