ریاست میں ٹریفک کا بحران ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتا جارہا ہے اور یہ گتھی سلجھنے کی بجائے مزید الجھتی ہی جارہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ گورنر این این ووہرا نے اس معاملے کو سنجیدگی کے ساتھ لیکر اسے چست درست کرنے کےلئے ایک نقشہ راہ تیار کرنے کی ہدایت دی ہے۔ گورنرنے ٹریفک سےجڑے مختلف صیغوں، جن میں ٹرانسپورٹ محکمہ، ٹریفک پولیس، موٹر وہیکلز ڈیپارٹمنٹ وغیرہ شامل ہیں، پر زور دیا ہے کہ وہ ٹریفک منیجمنٹ کو جدید اصولوں پر استوار کرکے زیادہ سے زیادہ آٹو مشین پر توجہ مرکوزکریں تاکہ ریاست کے اندر تیزی کے ساتھ بگڑ رہی ٹریفک کی صورتحال میں بہتری لانا ممکن ہوسکے۔ ظاہر بات ہے کہ ٹریفک منیجنٹ میں خامیوں کی وجہ سے نہ صرف لاکھوں گھنٹوں پر مشتمل اوقات کار کا ضیاع ہو رہا ہے بلکہ وقت کے نقصان کا ازالہ کرنے کی دوڑ میں تیررفتارڈرائیونگ کا تباہ کُن رجحان قیمتی جانوں کے زیاں کا سبب بن رہا ہے۔ اس طرح بڑھتے ٹریفک کی وجہ سے ایک سنگین صورتحال بن گئی ہے، جسے اگر فوری طور پرمنیجمنٹ کے جدید اصولوں کے تحت قابو نہ کیا گیا تو آنے والے اوقات نہایت ہی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔ شہر سرینگر کے اندر کمزور منیجمنٹ کے علاوہ جہانگیر چوک رام باغ فلائی اوور کی تعمیر میں انتہائی تاخیر اور کچھ عرصے سے کام بند ہونے کے عمل سے ان مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس پربھی گورنرنے برہمی ظاہر کی ہے کیونکہ اس کی وجہ سےسول لائنز کی ہر چھوٹی بڑی سڑک پر ٹریفک جام کی پریشانی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ اور اس حوالے سے ٹریفک محکمہ وقت وقت پرجوروٹ پلان جاری کرتاہے، وہ بیل منڈھے چڑھتے ہوئے دکھائی نہیں دے رہی ۔ شہر سرینگر کے اکثر علاقوں میںصبح اورشام کے وقت لگنے والے ٹریفک جامو ںسے عوام کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ دفترجانے والے لوگوں اور سکولی بچو ں کو ان ٹریفک جاموں کی وجہ سے اپنی منزل تک پہنچنے میں دیر ہوجاتی ہے۔شہر کے بیشتر علاقوں،جن میںسونہ وار ،راجباغ ،جہانگیر چوک، ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ، پولو ویو، ریگل چوک، ریذیڈنسی روڈ،ایم اے روڈ،صنعت نگر، ریڈیو اسٹیشن، ،بٹہ مالو پر ہر صبح اور ہر شام سینکڑوں گاڑیاں بیک وقت درماندہ ہو جاتی ہیں اور مسافروں کو کئی گھنٹوں تک انتظار کرنا پڑتاہے۔ ٹریفک جام کی وجہ سے اسپتال جانے والے بیماروں کو بھی کوفت کا سامنا ہے جبکہ اکثر اوقات مریضوں کو لے جارہی ایمبولنس گاڑیاں بھی گھنٹوں تک ٹریفک جام میں پھنس جاتی ہیں ۔’مرض بڑھتا گیا ،جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق جتنا زیادہ حکومتی ادارے گرمائی دارالحکومتی شہر میں ٹریفک نظام کو چست و درست کرنے کی کوششیں کررہے ہیں،اتنا ہی نظام بگڑ تا جارہا ہے اور بدیہی طور پر اس مرض پر کوئی دوائی کام کرتی نظر نہیں آرہی ہے ۔انتظامیہ آئے روز نت نئے فارمولے لیکر آتی ہے اور ہر دن کوئی نیا نسخہ پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اب اس روح فرسا تکلیف سے نجات مل کرہی رہے گی لیکن اگلے ہی دن اس نسخہ کی ہوا نکل جاتی ہے۔گوکہ آج ٹریفک پولیس اور ضلعی پولیس بظاہر ٹریفک کے حوالے سے متحرک ہوچکی ہے لیکن پولیس کا طمطراق صرف گاڑیوں کا چالان کرنے تک ہی محدود ہے اور معمولی سی غلطیوں کو لیکر چالان بُک خالی یہ تاثر دینے کے جتن کئے جارہے ہیں کہ پولیس محکمہ صورتحال کی سنگینی سے غافل نہیں ہے اور محدود وسائل کے باوجود اپنی طرف سے ٹریفک نظام کو درست کرنے کی حتی المقدور کوشش کررہا ہے لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ پولیس کی یہ چستی صرف چالان کے نام پر جرمانہ کی صورت میں روزانہ خزانہ عامرہ میں لاکھوں روپے جمع کرنے تک ہی محدود ہے جبکہ دوسری جانب ٹریفک جام کی بڑھتی وباء کی وجہ سے شہر کی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔آئے روز کے ٹریفک جاموں کی وجہ سے سے صرف شہر سرینگر کی اقتصادیات پر پڑھنے والے منفی اثرات کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ صرف ایک ماہ میں سرینگر ضلع میں ایام ِ کار کے33لاکھ گھنٹے ضائع ہوجاتے ہیں۔2011مردم شماری کے مطابق سرینگر کی آبادی 12لاکھ36ہزار829نفوس پر مشتمل تھی اور اگر ایک دہائی میں آبادی میں23فیصد اضافہ کی شرح کو مدنظر رکھ کر حساب کتاب لگایاجائے تو اس وقت شہر کی آبادی13.5لاکھ ہوگی۔ماہرین اقتصادیات کے ایک جائزے کے مطابق اگر فرض کیاجائے کہ شہر میں صرف40فیصد کام گر ہوںتو ان کی تعداد5لاکھ40ہزار بنتی ہے اور اب یہ بھی مان لیاجائے کہ 40فیصد کی اس آبادی کو روزانہ ٹریفک جام کی وجہ سے ایک گھنٹہ ضائع ہوجاتا ہے تو یہ مجموعی طور روزانہ 1.10لاکھ گھنٹے اور ماہانہ33لاکھ گھنٹے بن جاتے ہیں۔جس شہر میں کام گر طبقہ کو ماہانہ 33لاکھ گھنٹے ٹریفک جام کی وجہ سے ضائع کرنے پڑیں،اُس شہر کی اقتصادیات کا خدا ہی حافظ ہوگا۔یہ تو کشمیر میں ابھی وقت کی اتنی قدر نہیں ہے ،لہٰذا لوگوں کو ٹریفک جام کی وجہ سے ضائع ہونے والے قیمتی وقت کا احساس نہیں ہوتا ہے ورنہ ترقی یافتہ ممالک میں وقت کو سرمایہ کہتے ہیں اور وہاں پیسے سے زیادہ وقت کی اہمیت ہے ۔ٹریفک جام کی وجہ سے سڑکوں پر وقت کا یہ زیاں یقینی طور پر ریاستی معیشت پر بھاری پڑ رہا ہے لیکن شاید حکام کو اس کا احساس نہیں ہے کیونکہ اگر احساس ہوتا تو اس کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جاتے ۔یہ تو اس صورتحال ایک منفی پہلو ہے ۔اب اگر اس صورتحال کی وجہ سے دیگر اہم شعبوں پر پڑنے والے منفی اثرات کا جائزہ لیاجائے تو صفحوں کے صفحے بھر جائیں گے لیکن پھر بھی بات مکمل نہ ہوگی اور وجوہات کا پٹارا ختم نہیں ہوگا۔لہٰذا زیادہ طویل بحث میں جائے بغیر ارباب بست و کشاد سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ گہری نیند سے جاگ جائیں اور اہلیانِ شہر کو اس درد مسلسل سے نجات دلانے کی کوئی مستقل سبیل پیدا کریں تاکہ پہلے سے ہی بدحال معیشت اب مسلسل ٹریفک جاموں کی وجہ سے مزید لرزہ بر اندام نہ ہوجائے کیونکہ وہ ریاست کیلئے کوئی اچھی خبر نہیںہے۔گورنر ووہرا نے جس عنوان سے سابق حکومتوں کی وجہ سے پیداشدہ خامیوں کو دور کرنے کےلئے تحرّک کی ایک فضاء پیدا کی ہے ،اُس کو دیکھتے ہوئے یہ اُمید کرنا بجا ہے کہ آنے والے ایام میں اس صورتحال میں ضروربہتری دیکھنے کو ملے گی۔