شہر سرینگر میں ٹریفک جاموں کی شدت اپنی عروج کو پہنچتی جارہی ہے اور روزانہ اہم مقامات پر طویل ٹریفک جاموں کے بہ سبب لوگوں کے قیمتی اوقات کا ضیاع عمل میں آر ہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سڑکوں پر دوڑنے والی گاڑیوں میں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بے تحاشہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس کی متعد وجوہات ہیں۔ پبلک سیکٹر ٹرانسپوٹ کے تئیں ہماری حکومتوں کی منفی پالیساں جہاں اس کا ایک بڑا سبب ہے وہیں بدلتے سماج میں اُبھرنے والی نئی اقدار سے ہم آہنگی کا مزاج بھی ایک اہم سبب ہے، جس کےلئے گاڑیاں تیار کرنے والے ٹرانسپورٹ اور اُن کے حصول کےلئے قرضے فراہم کرنے والے بینکنگ سیکٹروں سے جڑے شعبوں کی ہمہ پہلو پالیساں راہ ہموار کررہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ مزاج اس وقت ساری دنیا میں روبہ فروغ ہے لیکن وہاں ٹریفک کے بڑھتے دبائو کے ساتھ ساتھ قوانین اورقواعدو ضوابط کے حوالے سے عوام کے اندر حساسیت بھی اُجاگر ہوتی رہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ زیادہ ٹریفک دبائو سے نمٹنے کےلئے نئی سڑکیں اور شاہرائیں تعمیر ہورہی ہیں لیکن ہماری ریاست میں ٹریفک میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے پہلو بہ پہلو ایک طرف قواعد وضوابط کی دھجیاں اڑانے کا مزاج عام ہوگیا ہے، جبکہ دوسری جانب نئی سڑکیں بنانے کی طرف ایسی توجہ مبذول نہیں کی جارہی ہے جیسا ہونا چاہئےتھا۔ہمارے یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ صبح اور سہ پہر کے وقت جب دفتری عملہ کی نقل و حرکت اپنے شباب پر ہوتی ہےایک ایک چوراہے کو عبور کرنے میںبعض اوقات آدھ آدھ گھنٹہ صرف ہو جاتا ہے ، جبکہ ٹریفک کے بھاری جمائو کے بعد سگنل کھل جانے پر گاڑیاں اور ٹووہیلر ڈرائیو کرنے والے متعدد حضرات سانپ کی چال ڈرائیونگ کرکے ایک دوسرےپر سبقت لینے کی کوشش میں اکثر اوقات کسی نہ کسی پرچڑھ دوڑ بیٹھتے ہیں، جس سے نہ صرف ان گاڑیوں کو نقصان ہوتا ہے بلکہ بعض اوقات خوفناک قسم کے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ ٹریفک جاموں میں وقت ضائع ہونے کے بعد اپنے کام پر پہنچنے کی جلدی ہمیشہ حادثات کا سبب بنتی رہتی ہے ، لیکن ہم ہیں کہ نہ توسماجی سطح پر اور نہ ہی انتظامی سطح پر مسئلے کا حل تلاش کرنے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ٹریفک جاموں کے اس سلسلہ سے عام لوگوں کے زندگی کے معمولات بُری طرح متاثر ہونے کی وجہ سے نہ صرف انہیں معیشی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے بلکہ لوگ بُری طرح نفسیاتی دبائو سے دو چار ہور ہےہیں۔ سنیچر کی سہ پہر اور سوموار کی صبح کو شہر کی غالباً ہی کوئی ایسی سڑک رہی ہو گی جس پر سہ پہر کے وقت بدترین جامنگ کے بہ سبب سفر کرنے والے گھنٹوں اس طرح اٹکے رہےکہ کہیں سےکسی کو نکلنے کی جگہ بھی میسر نہ آئی۔ ظاہر ہے جب ہزاروں کی تعداد میں سفر کرنے والے جامنگ کا شکار ہو جائیں تو سینکڑوں کی تعداد اُن میں مریضوں اور جسمانی طور پرکمزور لوگوں کی بھی ہوسکتی ہے۔ مگر جس عنوان سے یہ مصیبت ایک قیامت کی صورت اختیار کرنےلگی ہے، اُس سے یہی لگتا ہے کہ حکومت میں عوام کی مشکلات کے تئیں ذمہ داری کی رمق تک بھی نہیں دکھائی دے رہی ہے، ورنہ آئے روز میڈیا کے توسط سے ان جاموں کی وجہ سے لوگوںکو پیش آنے والی مشکلات کا بار بار خلاصہ کیا جارہا ہے، مگر متعلقہ ذمہ داروں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔اس پر طرہ یہ کہ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیاں اس پیمانے پر عروج پکڑ چکی ہیں جسکی ماضی میں شاید ہی کوئی مثال موجود ہو۔شہر سرینگر کے بالائی علاقہ میں جہانگیر چوک رام باغ فلائی اوور جسکادوسرا حصہ بھی ہلکے ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا ہے، کی تکمیل کے اہداف بار بار بدلے جاتے رہے ہیں اور اسکی تکمیل کی صورت ابھی دور دور تک نظر نہیں آرہی ہے جس کی وجہ سے سول لائنز کی ہر چھوٹی بڑی سڑک پر ٹریفک جام کی پریشانی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے۔ اگر چہ اس حوالے سے ٹریفک محکمہ کی طرف سے وقت وقت پر روٹ پلان جاری کئے جاتے ہیں،لیکن زمین پر انکا کوئی اثر نہیں دیکھنے کو ملتا۔مرض بڑھتا گیا ،جوں جوں دوا کی‘ کے مصداق جتنے زیادہ حکومتی ادارے گرمائی دارالحکومتی شہر میں ٹریفک نظام کو چست و درست کرنے کے دعوئے کرتے ہیں،اتنا ہی نظام مزیدبگڑ تا جارہا ہے اور بدیہی طور پر اس مرض کےلئے کوئی دوائی کام کرتی نظر نہیں آرہی ہے ۔انتظامیہ آئے روز نت نئے فارمولے لیکر آتی ہے اور ہر دن کوئی نیا نسخہ پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اب اس روح فرسا تکلیف سے نجات مل کرہی رہے گی لیکن اگلے ہی دن اس نسخہ کی ہوا نکل جاتی ہے۔گوکہ ٹریفک پولیس اور ضلعی پولیس ٹریفک کے حوالے سے ظاہری طور پر متحرک نظر آتی ہے لیکن پولیس کا طمطراق صرف غلط پارکنگ کرنے والی گاڑیاں اُٹھانے اور انکا چالان کرنے تک ہی محدودہو کر رہ گیا ہے اور معمولی غلطیوں کو لیکر چالان کرکےصرف یہ تاثر دینے کے جتن کئے جارہے ہیں کہ پولیس محکمہ صورتحال کی سنگینی سے غافل نہیں ہے۔ پولیس کی یہ چستی صرف چالان کے نام پر جرمانہ کی صورت میں روزانہ خزانہ عامرہ میں لاکھوں روپے جمع کرنے تک ہی محدود ہے جبکہ دوسری جانب ٹریفک جام کی بڑھتی وباء کی وجہ سے شہر اور قصبہ جات کی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے ۔یہ تو کشمیر میں ابھی وقت کی اتنی قدر نہیں ہے ،لہٰذا لوگوں کو ٹریفک جام کی وجہ سے ضائع ہونے والے قیمتی وقت کا احساس نہیں ہوتا ہے ورنہ ترقی یافتہ ممالک میں وقت کو سرمایہ کہتے ہیں اور وہاں پیسے سے زیادہ وقت کی اہمیت ہے ۔ٹریفک جام کی وجہ سے سڑکوں پر وقت کا یہ زیاں یقینی طور پر ریاستی معیشت پر بھاری پڑ رہا ہے لیکن شاید حکام کو اس کا احساس نہیں ہے کیونکہ اگر احساس ہوتا تو اس کے تدارک کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جاتے ۔یہ تو اس صورتحال کا ایک منفی پہلو ہے ۔اب اگر اس صورتحال کی وجہ سے دیگر اہم شعبوں پر پڑنے والے منفی اثرات کا جائزہ لیاجائے تو صفحوں کے صفحے بھر جائیں گے لیکن پھر بھی بات مکمل نہ ہوگی اور وجوہات کا پٹارا ختم نہیں ہوگا۔لہٰذا زیادہ طویل بحث میں جائے بغیر ارباب بست و کشاد سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ گہری نیند سے جاگ جائیں اور اہلیانِ شہر کو اس درد مسلسل سے نجات دلانے کی کوئی مستقل سبیل پیدا کریں تاکہ پہلے سے ہی بدحال معیشت اب مسلسل ٹریفک جاموں کی وجہ سے مزید لرزہ بر اندام نہ ہوجائے کیونکہ وہ ریاست کیلئے کوئی اچھی خبر نہیںہے۔