وزیر اعظم نریندر مودی نے اُتر پردیش کااسمبلی الیکشن جیت جانے کے بعد یہ کہا تھا کہ اگلا چناؤ یعنی ۲۰۱۹ء کا لوک سبھا الیکشن موبائل پر لڑا جائے گا۔ان کے اس بیان سے کسی کو حیرت نہیں ہوئی۔عوام اور میڈیا نے ایک طرح سے اس کی منظوری دے دی ورنہ کہیں نہ کہیں سے اس کے خلاف آواز اٹھتی۔وزیر اعظم نئی ٹیکنا لوجی کو اپنانے اور استعمال کرنے کے لئے جانے جاتے ہیں اور اس تعلق سے کچھ نہ کچھ پیش گوئیاں بھی کرتے رہتے ہیں جس سے ان کے بھکت انہیں دانش ور سمجھنے اوریہی بات دوسروں کو سمجھانے پر آمادہ نظر آتے ہیںلیکن موصوف جدید ٹیکنالوجی خاص طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بارے میں خود کتنا جانتے ہیں ،یہ بحث طلب معاملہ ہے۔البتہ اتنا طے شدہ ہے کہ وہ اس کا استعمال دوسروں سے بحسن و خوبی کروانا خوب جانتے ہیں ۔ جب وہ کہتے ہیں کہ اگلا الیکشن موبائل پر لڑا جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ۲۰۱۹ء کے آتے آتے بیشتر لوگوں کے پاس موبائل ہو جائے گا اور وہ بھی اینڈرائڈ یعنی اسمارٹ فون اور ظاہر ہے کہ انٹرنیٹ کی سہولت بھی انہیں مہیا ہوگی۔حکومت کے ذریعے وائی فائی کا انتظام بڑے پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔ریلائنس کے مکیش امبانی جو ’’جِیو‘‘لے کر میدان میں اُترے ہیں اور نوٹ بندی کے دن ہی سے ۳۱؍مارچ تک فون پر مفت گفتگو ئیں،فری ڈیٹا اور یہاں تک کہ مفت ویڈیو کالنگ کی سہولت دے کربہت کم عرصے میں تقریباً۱۰؍کروڑگاہک بنانے میں کامیاب ہو گئے اور لوگوں کو انٹر نیٹ کی لت لگا کر ایک طرح سے بازار میں ’’ڈیٹا کی جنگ‘‘ شروع کر دی، جو ابھی جاریہے۔مکیش امبانی کی یہ سرمایہ کاری یوں رائیگاں نہیں جائے گی ، اس کے فوائد۲۰۱۹ئمیں حاصل ہو جائیں گے کیونکہ وزیر اعظم نے خود’’جِیو‘ ‘کی اشتہار بازی کی ہے جس پر خاصا واویلا مچا تھا۔موبائل ،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اثرات ، برے بھلے کس قدر مرتب ہو رہے ہیں اور ایک عام ہندوستانی اس سے کس قدر فیضیاب ہو رہا ہے ؟یا زحمت میں مبتلا ہے ؟اس سے حکومت اور ہمارے وزیر اعظم کو کچھ لینا دینا نہیں ہے۔انہیں اپنی جیت اور ٹی آر پی سے مطلب ہے۔انہوں نے توآئی ٹی کی ایک فوج بنا رکھی ہے جو ہر طرح کی نظریاتی جنگ سوشل میڈیا پر لڑ رہی ہے اور ہر صورت میں فتح یاب ہونا چاہتی ہے، چاہے اس کے لئے گالم گلوچ،کردارکشی اور بے عزتی تک کیوں نہ اپنائی جائے۔ہر قیمت پر اپنی بات منوانااور خود کو صحیح ثابت کرنا ان کی اس فوج کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ وطیرہ ہے، چاہے مد مقابل خواتین ہی کیوں نہ ہوں!
گزشتہ ایک ہفتے سے پرنٹ میڈیا اور کچھ حد تک برقی میڈیا پر ایک بحث جاری ہے کہ ٹرولِنگ کی عفریت کیا ہے اور کون لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں اور شکار کرنے والے کون لوگ ہوتے ہیں اور ان کا کچھ بگڑتا بھی ہے یا نہیں ؟گزشتہ دنوں’’ ٹائمز آف انڈیا ‘‘میںبین ا لاقوامی خبروں کے تحت’’ گلف نیوز‘‘ اور’’ خلیج ٹائمز‘‘کے حوالے سے یہ خبر شائع ہوئی کہ خلیجی مملکت شارجہ کی ایک کمپنی نے اپنے ایک ہندوستانی ملازم کیرلا کے بِنسی لعل بالا چندرن کو اس لئے کمپنی سے نہ صرف نکال دیا بلکہ ہندوستان بھی بھیج دیا کیونکہ اس نے رعنا ایوب کے خلاف فیس بک پر نازیبا کلمات ادا کئے تھے اور تصاویر ڈالی تھیں۔رعنا ایوب ایک سرکردہ خاتون صحافی ہیں اور تحقیقاتی صحافت کے لئے جانی جاتی ہیں۔شہرۂ آفاق انگریزی رسالہ ’’تہلکہ‘‘ سے وابستہ تھیں اوراْسی وقت سے رعنا نے ایسے ایسے کارنامے انجام دئے اور اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر ایسے حقائق سے پردہ اٹھایاجن میں خاص طور پر بی جے پی کے چوٹی کے لیڈر ملوث تھے۔ان کی تحقیقات کی وجہ ہی سے امیت شاہ کو جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی،یہاں تک کہ انہیں ’’گجرات بدر‘‘ بھی ہونا پڑا تھا۔گزشتہ برس رعنا کی کتاب ’’گجرات فائلز‘‘ پہلے انگریزی میں منظر عام پر آئی۔اب تو اس کے ہندوستان کے مختلف ۸تا۱۰؍زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔اردو میں بھی اس کا ترجمہ ہوا ہے اور انگریزی میں تو اس کا دوسرا ایڈیشن بھی آگیا ہے۔اس کتاب میں اْن حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے جو موجودہ وزیر اعظم مودی ، امیت شاہ اور گجرات کے بہت سارے پولیس افسروں اور وزیروں کی کارستانیاں سامنے آگئی ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ کسی نے بھی آج تک کتاب میں پیش کردہ مشمولات سے اختلاف نہیں کیا ۔قوم کی اس قابل فخر بیٹی نے وہ کام کر دکھایا جو کہ قوم کا ایک سچا ہمدرد ہی کر سکتا ہے۔ رعنا ایوب کا نصب العین ٹھوس حقائق کو پیش کرنا تھا، اس کے لئے انہوں نے جان کی بازی بھی لگانے سے گریز نہیں کیا۔یوں بھی انہوں نے بچپن میں۱۹۹۲ئکے ممبئی کے فسادات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور ۲۰۰۲ء کے ’’گجرات قتل عام‘‘ کو کَوَربھی کیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رعنا سے نفرت کرنے والوں کی تعداد محبت کرنے والوں سے زیادہ ہے ۔ خاص طور پر سنگھی بھکت انہیں سوشل میڈیا پر بہت پریشان کرتے ہیں اور قسم قسم کے القاب سے انہیں یاد کرتے ہیں۔سوشل میڈیا پر نازیباکلمات ادا کرنااوراس کے ذریعیاسے ہراساں کرنا ’’ ٹرولِنگ‘‘ کہلاتا ہے اور اگر فون پر بھی کوئی کسی کو لعن طعن کرتا ہے اور غیر پارلیمانی گفتگو کرتا ہے تو وہ بھی ٹرالنگ کے زمرے ہی میں آتی ہے۔یہ تمام جرائم (اگر انہیں جرائم مانا جائے) انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ کے تحت آتے ہیں اور اس کے علاوہ انڈین پینل کوڈ(آئی پی سی) کے تحت بھی ان کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔رعنا نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ خلیجی ممالک کے تعلق سے اور وہاں کی خواتین کے قوانین کے حوالے سے ہمارے یہاں جو تصور ہے وہ بہت ہی دُھندلا ہے لیکن وہاں کے قوانین ،خواتین کے حق میں زیادہ سخت ہیں۔یہ بات دُرست بھی ہے کہ وہاں پر قانون کی پاسداری بدرجۂ اتم موجود ہے جبھی تو بنسی لال کو کمپنی نے باہر کا راستہ دکھادیا۔ اگر وہ اس کا مقابلہ وہاں کی عدالت میں کرتا تو جرم ثابت ہونے کے بعد اسے عمر قید کی سزا بھی ہو سکتی تھی یا ۵۰؍ہزار درہم سے لے کر ۳۰؍لاکھ درہم تک کا جرمانہ ہو سکتا تھااور ایک ساتھ دونوں سزائیں بھی ہو سکتی تھیں۔اسی لئے بنسی لال نے ہندوستان واپس آنا ہی مناسب جانا لیکن کیا ایسا ہندوستان میں ممکن ہے؟اس تعلق سے رعنا نے اسی مضمون میں لکھا ہے کہ ۲؍برس قبل دہلی میں جب اس نے ایک پولیس افسر سے اس طرح کے نازیبا کلمات کے تعلق سے گفتگو کی جو اسے موصول ہوئے تھے اور چاہا تھا کہ ایف آئی آر درج ہو جائے تو پولیس افسرنے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اس طرح کی چیزوں کو آپ نظر انداز کر دیا کریں ،ایسا کرنے والے بیوقوف ہوتے ہیں اور سوشل میڈیا پر صرف ’’مذاق‘‘ کے لئے وہ ایسا کرتے ہیںلیکن رعنا ایوب کے اس کیس(خلیج والے) کے حوالے سے ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘،این ڈی ٹی وی اور خاص طور پر ’’ہندوستان ٹائمز‘‘ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔’’ہندوستان ٹائمز ‘‘نے تو با ضابطہ مضامین کی ایک سیریز شروع کر دی ہے اور جو خواتین اور مرد حضرات اس ’’ٹرول‘‘ کے شکار ہوئے ہیں ،ان سے مضمون لکھوایا ہے جن میں گْر مہر کور،برکھا دت، رعنا ایوب، ماہر نفسیات ڈاکٹر سمیر پاریکھ(جنہوں نے متاثرین کا علاج کیا ہے)،پٹنہ سے خاتون صحافی سشمتا سنہا،مشہور وکیل کرونا نندی اورنیشنل ایوارڈ جیتنے والی اداکارہ سونم کپور وغیرہ شامل ہیں ۔یہ سیریز اب بھی جاری ہے۔ان تمام میں مشترک بات یہ ہے کہ ان میں بیشتربی جے پی بھکتوں کے ستائے ہوئے لوگ ہیں۔اب جب کہ وزیر اعظم ایک نئی طاقت کے ساتھ منظر عام پر آئے ہیں اور ان کی خواہش بھی پوری ہوتی جا رہی ہے تو کیا اس طرح کے حربوں پر وہ قدغن لگائیں گے؟ایسا لگتا تو نہیں ہے کیونکہ بی جے پی کی پوری سیاست آئی ٹی اور سوشل میڈیا پر منحصر ہے۔عامر خان نے جب عدم رواداری کی بات کی تھی تو سوشل میڈیا پر ایسا واویلا مچایا گیا کہ انہیں ’’اسنیپ ڈیل‘‘ اور ’’اِن کریڈیبل انڈیا‘‘ کے برانڈ ایمبسڈر کام سے ہاتھ دھونا پڑا تھا۔اس کا اعتراف سادھوی کھوسلہ نے کیا تھا جو کبھی بی جے پی کے آئی ٹی سیل سے وابستہ تھیں اورنریندر مودی کے فون کرنے پرامریکہ میں اپنی اچھی خاصی نوکری چھوڑ کر بی جے پی کے میڈیا سیل کو جوائن کیا تھا،انہیں باضابطہ اس کی ہدایت دی گئی تھی کہ اپنے بھکتوںکو عامر خان کے پیچھے لگا دو اور یہ ہدایت دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ بی جے پی میڈیا یونٹ کے صدر اروند گپتا تھے۔اسی طرح شاہ رخ خان ،کرن جوہر،رشی کپور،سوناکشی سنہا وغیرہ کو بھی نہیں بخشا گیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔جس طرح اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتاکہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات تک کیا کیا ہوگا،اسی طرح اس بات کی بھی کوئی امید نہیں کہ یہاں کے کسی بنسی لال کو کوئی سزا ہوگی۔یہ کھیل شاید یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ،نئی ممبئی کے مدیر ہیں ؛رابطہ:9833999883)