عظمیٰ نیوز سروس
ماسکو//روسی صدر ولادیمیر پوتن یوکرین میں جنگ اُس وقت تک جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں جب تک مغرب اُن کی شرائط پر امن مذاکرات پر راضی نہیں ہوتا، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مزید سخت پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود اُن کی علاقائی مطالبات میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے ۔عالمی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق ذرائع نے بتایا ہے کہ پوتن ، جنہوں نے فروری 2022 میں روسی فوج کو یوکرین میں داخل ہونے کا حکم دیا تھا، جبکہ اس سے پہلے آٹھ سال تک یوکرین کے مشرق میں روس نواز علیحدگی پسندوں اور یوکرینی فوج کے درمیان لڑائی جاری رہی تھی، کا ماننا ہے کہ روس کی معیشت اور فوج اتنی مضبوط ہے کہ وہ مغرب کی مزید پابندیوں کا مقابلہ کرسکے گی۔خیال رہے کہ ٹرمپ نے پیر کے روز پوتن کے جنگ بندی پر آمادہ نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے کا اعلان کیا، جس میں پیٹریاٹ میزائل سسٹمز بھی شامل ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر 50 دن میں امن معاہدہ نہ ہوا تو روس پر مزید پابندیاں لگائی جاسکتی ہیں۔کریملن کی اعلیٰ سطحی سوچ سے واقف تین روسی ذرائع نے کہا کہ پوتن مغرب کے دباؤ میں آکر جنگ نہیں روکیں گے اور ان کا ماننا ہے کہ روس، جس نے مغرب کی سخت ترین پابندیوں کا مقابلہ کیا ہے ، مزید معاشی مشکلات کا سامنا کرسکتا ہے ، جن میں روسی تیل کے خریداروں پر امریکی ٹیرف بھی شامل ہیں۔ایک ذریعہ نے رائٹرز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘ پوتن سمجھتے ہیں کہ یوکرین میں امن کے معاملے پر کسی نے ان سے سنجیدگی سے بات نہیں کی، بشمول امریکیوں کے ، اس لیے وہ اپنی مرضی پوری ہونے تک جاری رکھیں گے ۔‘ذرائع کے مطابق، ٹرمپ اور پوتن کے درمیان کئی بار ٹیلی فونک گفتگو اور امریکی ایلچی اسٹیو وِٹکوف کے روس دورے کے باوجود پوتن سمجھتے ہیں کہ ابھی تک امن منصوبے کی بنیاد پر کوئی تفصیلی بات چیت نہیں ہوئی۔ذرائع نے کہا کہ‘ پوتن ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور وِٹکوف کے ساتھ ان کی بات چیت بھی اچھی رہی، لیکن روس کے مفادات سب سے اوپر ہیں۔‘وائٹ ہاؤس کی ترجمان اینا کیلی نے رائٹرز کو بتایا کہ سابق صدر جو بائیڈن کی پالیسیوں کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ‘بائیڈن کے برعکس صدر ٹرمپ خونریزی روکنے پر توجہ دے رہے ہیں، اور اگر پوتن نے جنگ بندی پر اتفاق نہ کیا تو انہیں سخت پابندیوں اور ٹیرف کا سامنا کرنا ہوگا۔‘صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ یوکرین روس کی طرف سے قبضہ کیے گئے علاقوں کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا اور نیٹو میں شامل ہونے کے فیصلے کا حق محفوظ رکھے گا، اس خبر پر زیلنسکی کے دفتر نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔دوسرے ذریعہ کے مطابق پیوٹن کے لیے ماسکو کے مقاصد مغربی دباؤ سے ہونے والے ممکنہ معاشی نقصان سے کہیں زیادہ اہم ہیں، اور وہ چین اور بھارت پر روسی تیل خریدنے کی وجہ سے امریکی ٹیرف کی دھمکیوں سے پریشان نہیں۔دو ذرائع نے کہا کہ روس کو میدان جنگ میں برتری حاصل ہے اور اس کی جنگی معیشت نیٹو اتحاد کے مقابلے میں اہم ہتھیاروں جیسے توپ خانے کے گولے زیادہ پیدا کر رہی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پیوٹن یوکرین کی دفاعی لائن ٹوٹنے تک لڑتے رہیں گے اور اگر زیادہ مزاحمت نہ ملی تو دنیپروپیٹرووسک، سومی اور خارکیف کے مزید علاقے بھی قبضے میں لے سکتے ہیں۔تیسرے ذریعہ نے کہا کہ ‘ روس یوکرین کی کمزوری کو بنیاد بنا کر اقدامات کرے گا، اگر یوکرین کی مزاحمت سخت ہوئی تو روس مشرقی علاقوں پر قبضے کے بعد رک سکتا ہے ، لیکن اگر دفاع ٹوٹا تو مزید علاقے لیے جائیں گے ۔‘یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روسی افواج کی گرمیوں کی پیش قدمی اتنی کامیاب نہیں جتنی ماسکو نے امید کی تھی، یوکرین کی فوجی قیادت مانتی ہے کہ روسی فوجی تعداد میں زیادہ ہیں لیکن یوکرینی فوج انہیں بھاری نقصان پہنچا رہی ہے ۔امریکہ کے مطابق، جنگ میں اب تک 12 لاکھ لوگ زخمی یا ہلاک ہو چکے ہیں جو دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کی سب سے ہلاکت خیز لڑائی ہے ۔ روس اور یوکرین دونوں اپنی فوجی ہلاکتوں کے مکمل اعدادوشمار ظاہر نہیں کرتے اور ماسکو مغربی اندازوں کو پراپیگنڈا کہتا ہے ۔