عظمیٰ نیوزڈیسک
واشنگٹن//امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے لیے ایک 20 نکاتی امن منصوبہ پیش کیا ہے جس کا مقصد قریب دو برس سے جاری اسرائیل اور حماس کے درمیان خونریز جنگ کو فوری طور پر ختم کرانا ہے۔ منصوبے کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان اگر اتفاق رائے قائم ہو جائے تو فوجی کارروائیاں فی الفور روک دی جائیں گی اور اسی دوران یرغمالیوں کے مرحلہ وار تبادلے کا عمل شروع ہوگا۔منصوبے کے تحت اسرائیل کو 72 گھنٹے کے اندر اپنے یرغمالیوں، خواہ وہ زندہ ہوں یا ان کے اجساد، واپس مل جائیں گے۔ اس کے بدلے میں اسرائیل 250 ایسے فلسطینیوں کو رہا کرے گا جو عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں، جبکہ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ میں گرفتار 1700 فلسطینیوں کو بھی رہا کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ شرط رکھی گئی ہے کہ ہر ایک اسرائیلی یرغمالی کی لاش کی واپسی پر 15 فلسطینیوں کی میتیں بھی واپس کی جائیں گی۔منصوبے میں اسرائیلی فوج کی مکمل واپسی کو ابتدائی شرط نہیں بنایا گیا بلکہ کہا گیا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے فوج ایک متعین لکیر تک پیچھے ہٹے گی اور اس دوران بمباری یا دیگر کارروائیاں روک دی جائیں گی۔ تمام محاذ جمی رہیں گے جب تک کہ مکمل اور مرحلہ وار انخلا کے حالات میسر نہ آ جائیں۔منصوبے کے مطابق، جب تمام یرغمالی رہا ہو جائیں گے تو حماس کے ان ارکان کو عام معافی دی جائے گی جو ہتھیار ڈال کر پرامن بقائے باہمی پر راضی ہوں گے۔ جو ارکان غزہ چھوڑنا چاہیں، انہیں محفوظ راستہ فراہم کیا جائے گا اور ایسے ممالک میں جانے دیا جائے گا جو انہیں قبول کرنے پر آمادہ ہوں۔ٹرمپ کے 20 نکاتی خاکے میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ غزہ کو ایک ’غیر عسکری اور دہشت گردی سے پاک خطہ‘ بنایا جائے گا جو اپنے پڑوسیوں کے لیے خطرہ نہ ہو۔ اس میں یہ یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ یا الحاق نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی کو زبردستی بے دخل کیا جائے گا۔ البتہ جو لوگ غزہ سے باہر جانا چاہیں گے، انہیں واپس آنے کا حق حاصل ہوگا۔منصوبہ کے تحت غزہ کو فوری طور پر انسانی امداد بھیجی جائے گی تاکہ قحط اور بھوک سے مرنے والوں کی حالت بہتر کی جا سکے۔ امداد کی ترسیل اقوام متحدہ، ریڈ کریسنٹ اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے ذریعے ہوگی اور دونوں فریق اس عمل میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اس مقصد کے لیے جنوبی غزہ کے رفح کراسنگ کو دوبارہ کھولا جائے گا۔غزہ کی مستقبل کی حکمرانی کے لیے ٹرمپ کے منصوبے میں ایک عارضی غیر سیاسی فلسطینی کمیٹی تشکیل دینے کی بات کہی گئی ہے۔ یہ کمیٹی بین الاقوامی ’بورڈ آف پیس‘ کی نگرانی میں کام کرے گی جس کی سربراہی براہِ راست ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں میں ہوگی۔ اس بورڈ میں دیگر عالمی رہنما بھی شامل ہوں گے جن میں سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کا نام بھی تجویز کیا گیا ہے۔یہ ادارہ نہ صرف غزہ کی تعمیر نو کے لیے مالی وسائل اکٹھے کرے گا بلکہ فلسطینی اتھارٹی کی اصلاح کے بعد طویل المدتی انتظامی ڈھانچے کے لیے راستہ بھی ہموار کرے گا۔