عظمیٰ نیوز سروس
نیویارک//امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے ساتھ اپنی تجارتی جنگ پر ممکنہ یوٹرن کا اشارہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ چینی مصنوعات پر زیادہ محصولات ’کافی حد تک کم‘ ہوجائیں گے، لیکن یہ صفر نہیں ہوں گے۔امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاوس کی ایک نیوز تقریب میں ٹرمپ کا یہ بیان کئی ہفتوں کے سخت رویے اور انتقامی کارروائی کے بعد بیان بازی میں کمی کی نشاندہی کرتا ہے، جس کے نتیجے میں چین پر محصولات کی شرح 145 فیصد سے تجاوز کر گئی تھی۔اوول آفس میں صحافیوں کے ساتھ سوال و جواب کے سیشن میں ٹرمپ نے کہا کہ 145 فیصد ٹیرف بہت زیادہ ہے، تاہم اب یہ اتنا زیادہ نہیں ہوگا، یہ کافی حد تک کم ہو جائے گا لیکن یہ صفر نہیں ہوگا۔ٹرمپ نے یہ تبصرہ سیکریٹری خزانہ اسکاٹ بیسنٹ کے اس بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر کیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکا اور چین کے درمیان محصولات کی بلند شرحوں نے معیشتوں کے درمیان تجارت کو مو¿ثر طریقے سے روک دیا ہے۔بیسینٹ نے جے پی مورگن چیس کی میزبانی میں ایک نجی سرمایہ کاری کانفرنس میں کہا تھا کہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ ناقابل برداشت ہے، اور انہیں امید ہے کہ مستقبل قریب میں اس جنگ میں کمی آئے گی۔ذرائع نے ’سی این این‘ کو بتایا کہ امریکا اور چین کے درمیان سخت وقفے یا مکمل علیحدگی کے بجائے، بیسنٹ نے سرمایہ کاروں کو بتایا کہ مقصد تجارت کو دوبارہ متوازن کرنا ہے۔اس جائزے سے وال اسٹریٹ میں تیزی آئی اور بیسنٹ کے ریمارکس کے منظر عام پر آنے کے بعد تینوں بڑے امریکی اسٹاک انڈیکس اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے تھے۔بدھ کے روز ایشیائی حصص میں بھی اضافہ ہوا، ہانگ کانگ کا ہینگ سینگ انڈیکس علاقائی تیزی میں سب سے آگے رہا، آخری بار اس میں 2.5 فیصد اضافہ ہوا تھا، جب کہ جاپان کے نکی 225 میں تقریباً 2 فیصد اور جنوبی کوریا کے کوسپی میں 1.5 فیصد اضافہ ہوا تھا۔دنیا کی دو بڑی معیشتوں نے تیزی سے بڑھتی ہوئی لڑائی میں ایک دوسرے پر ریکارڈ محصولات عائد کیے، جس نے عالمی منڈیوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا، سپلائی چین میں خلل پڑا اور کساد کے خدشات نے جنم لیا تھا۔
اب تک چین نے جارحانہ لہجہ اختیار کیا ہے اور پیچھے ہٹنے سے انکار کیا ہے، اس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر محصولات کو بڑھا کر 125 فیصد کردیا تھا، مزید امریکی کمپنیوں کو اپنی برآمدی کنٹرول کی فہرست اور ناقابل اعتماد ادارے کی فہرست میں شامل کیا، اور آئی فونز سے لے کر میزائل سسٹم تک ہر چیز میں استعمال ہونے والی اہم معدنیات کی برآمد کو محدود کر دیا تھا۔بیجنگ نے اہم امریکی صنعتوں پر بھی دباو¿ ڈالنے کی کوشش کی، ملک میں دکھائی جانے والی ہالی ووڈ فلموں کی تعداد کو محدود کر دیا اور کم از کم دو بوئنگ جیٹ طیارے واپس کر دیے، جو چینی ایئرلائنز کے استعمال کے لیے تھے۔اس سے قبل ’سی این این‘ کی رپورٹ کے مطابق، ٹرمپ نے زور دے کر کہا تھا کہ ان کے شی جن پنگ کے ساتھ ’بہت اچھے تعلقات‘ ہیں، اور وہ چینی رہنما کے پہنچنے کا انتظار کر رہے ہیں، اور انہوں نے اپنی ٹیم سے کہا ہے کہ امریکا پہل نہیں کرے گا۔ٹرمپ کو محصولات پر بات چیت کے لیے بلانے کے بجائے شی جن پنگ نے چین کو معاشی طور پر تنہا کرنے کے لیے محصولات کی جنگ کو استعمال کرنے کی امریکی کوششوں کو پس پشت ڈالنے کی خاطر دیگر تجارتی شراکت داروں کے ساتھ سفارتی مہم شروع کر دی ہے۔منگل کے روز ٹرمپ نے ایک بار پھر امید ظاہر کی کہ شی جن پنگ مذاکرات کی میز پر آئیں گے۔یہ پوچھے جانے پر کہ کیا امریکا، چین یا شی جن پنگ کے ساتھ کوئی معاہدہ کرنے جا رہا ہے، یا کیا حکام کووڈ 19 وبائی امراض کا ذکر کریں گے، ٹرمپ نے فوری طور پر جواب دیا ’نہیں‘۔صدر نے کہا کہ ’نہیں، نہیں، ہم بہت اچھے ہوں گے، وہ بہت اچھے ہوں گے اور ہم دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے، لیکن بالآخر انہیں ایک معاہدہ کرنا ہوگا کیونکہ بصورت دیگر وہ امریکا میں ڈیل کرنے کے قابل نہیں ہوں گے اور ہم انہیں اس میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک ساتھ بہت خوشی سے رہیں گے اور مثالی طور پر ایک ساتھ کام کریں گے، اس لیے میرے خیال میں یہ بہت اچھی طرح سے کام کرے گا۔‘دوسری جانب چین نے مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے ہیں، لیکن اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ مساوی شرائط پر ہونے چاہئیں۔چینی حکومت کی سوچ سے واقف ایک شخص نے گزشتہ ہفتے ’سی این این‘ کو بتایا تھا کہ چین، امریکا کے ساتھ تجارتی مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن کسی بھی بات چیت کی بنیاد ’احترام‘ کے ساتھ ساتھ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے زیادہ سے زیادہ ’مستقل مزاجی اور باہمی تعاون‘ پر ہونی چاہیے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے 2 اپریل کو ’یوم آزادی‘ پر محصولات عائد کرنے سے قبل چین نے امریکا کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک پوائنٹ پرسن مقرر کیا تھا، ٹرمپ اپنے مذاکرات کار بننا چاہتے ہیں لیکن یہ چین کے کام کرنے کے طریقہ کار سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔اس ماہ کے اوائل میں بیجنگ نے امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کو ایک انٹرویو میں ’چینی کسانوں‘ کے بارے میں ان کے بیان پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جس پر چین کے انٹرنیٹ پر بڑے پیمانے پر ناراضی اور مذاق اڑایا گیا تھا۔