عظمیٰ نیوزڈیسک
شرم الشیخ، مصر// امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں غزہ کے مستقبل کے بارے میں ایک عالمی سربراہی اجلاس سے خطاب کیا۔ اس دوران امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ میں ہم آہنگی کے ایک نئے دور کا مطالبہ کیا۔ٹرمپ نے کہا ، ’’ہمارے پاس زندگی میں ایک موقع ہے کہ ہم پرانے جھگڑوں اور تلخ نفرتوں کو پس پشت ڈال دیں‘‘۔ انہوں نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا ،’’یہ اعلان کریں کہ ہمارے مستقبل پر ماضی کی نسلوں کی جنگوں سے حکمرانی نہیں ہوگی۔‘‘ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کے ساتھ کہا، “ہر ایک نے کہا کہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ ہونے والا ہے۔ اور یہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔”اس سمٹ میں تقریباً تین درجن ممالک بشمول یورپ اور مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والے ممالک کی نمائندگی کی گئی۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو کو بھی مدعو کیا گیا تھا لیکن انہوں نے شرکت سے انکار کر دیا۔اس عالمی سربراہی اجلاس میں ٹرمپ، السیسی، ترک صدر رجب طیب اردگان اور قطری امیر تمیم بن حمد الثانی نے ایک دستاویز پر دستخط کیے۔ اس دستاویز میں غزہ اور مشرق وسطیٰ کے لیے ایک وسیع وڑن کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اس بارے میں ٹرمپ نے کہا کہ غزہ کے مستقبل کی بنیاد رکھی جائے گی۔تنازعہ کے دوران تباہ ہونے والے فلسطینی انکلیو میں اگلے اقدامات کے بارے میں غیر جوابی سوالات کے باوجود، ٹرمپ نے ایک پرعزم علاقائی ہم آہنگی کا مشن جاری رکھنے اور اس سے استفادہ حاصل کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔شرم الشیخ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کے ساتھ غزہ جنگ بندی مذاکرات میں “انتہائی اہم کردار” ادا کرنے پر مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی کی ستائش کی۔ ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ “ہر طرح سے اس کے ساتھ کھڑا ہے” اور اس بات کی تصدیق کی کہ مذاکرات کا “دوسرا مرحلہ” شروع ہو چکا ہے۔مصری صدر نے عالمی رہنماؤں کے اجلاس میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی تجویز خطے میں امن کے لیے “آخری موقع” ہے۔ انھوں نے دو ریاستی حل کے لیے اپنے مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کو ایک آزاد ریاست کا حق حاصل ہے۔مصر کے بحیرہ احمر کے تفریحی شہر شرم الشیخ میں ہونے والی اس سمٹ کا مقصد غزہ میں طے پانے والی جنگ بندی کی حمایت کرنا، اسرائیل اور حماس کی جنگ کا خاتمہ اور تباہ شدہ فلسطینی سرزمین پر حکمرانی اور تعمیر نو کے لیے ایک طویل مدتی وڑن تیار کرنا تھا۔یہ اجلاس جنگ کے خاتمے کے لیے ٹرمپ کے وڑن کے پیچھے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ سربراہی اجلاس کے شریک سربراہ مصری رہنما عبدالفتاح السیسی نے ٹرمپ سے کہا کہ “صرف آپ” ہی خطے میں امن لا سکتے ہیں۔ٹرمپ کے منصوبے میں فلسطینی ریاست کا امکان موجود ہے، لیکن غزہ میں طویل عبوری دور اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے اصلاحات کے عمل کے بعد ہی اسے ممکن بتایا گیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو آزاد فلسطینی ریاست کے مخالف ہیں۔ یہی وجہ نظر آتی ہے کہ، ٹرمپ نے سربراہی اجلاس میں دو ریاستی حل کا کوئی ذکر نہیں کیا۔سربراہی اجلاس سے اپنے خطاب میں، ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں ہم آہنگی کے نئے دور کا مطالبہ کا مطالبہ تو کیا لیکن دو ریاستی حل سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ اس دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے لیے عام معافی کا انتہائی غیر متوقع مطالبہ کردیا۔اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے نیتن یاہو کے لیے عام معافی کا انتہائی غیر متوقع مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو کے خلاف مقدمات سیاسی ہیں۔اسرائیلی کنیسٹ میں اپنی تقریر کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فخر سے کہا کہ انہوں نے امریکہ کے کئی بہترین ہتھیار اسرائیل کو دیے اور اسرائیل نے ان ہتھیاروں کا اچھا استعمال کیا۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہتھیار مانگنے کے لیے نیتن یاہو مجھے فون کرتے تھے، نیتن یاہو جو ہتھیار مانگتے تھے ان میں سے کچھ ہتھیاروں کے بارے میں تو پہلے کبھی سْنا بھی نہیں تھا۔