امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلیٰ سفارت کاروں کو طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرت کی ہدایات دی ہیں اور یہ فیصلہ امریکا کی افغان پالیسی میں بنیادی تبدیلی کا مظہر ہے۔ اخبار کے مطابق امریکی پالیسی میں آنے والی اس تبدیلی کی تصدیق کئی اعلیٰ عہدیداروں نے کی ہے۔ امریکی سفارت کاروں نے اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے دورے بھی کیے۔ امریکا کے اس انکشاف کوکہ امریکا نے طالبان سے براہ راست مذاکرات کا فیصلہ کر لیا ہے جنگ وجدل سے بھرپور اور عقل وخرد سے عاری سولہ برس کی سب سے بڑی خبر کہا جا سکتا ہے۔ صرف بڑی خبر ہی نہیں بلکہ اس فیصلے کو درست سمت میں پہلا اور اہم ترین قدم کہنا بے جا نہ ہوگا۔ یہ تند خوئی کی پہچان رکھنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا سب سے بڑا سرپرائز بھی ہے۔ شمالی کوریا کے سربراہ کم اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے ساتھ ملاقاتوں کو گو کہ امریکی صدر کے حیران کن فیصلے کہا جا سکتا ہے مگر طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ ان حیران کن فیصلوں کی سر فہرست میں سب سے اوپر ہے۔
امریکا کی مسلسل یہ خواہش رہی ہے کہ طالبان بون کانفرنس کے نتیجے میں افغانستان میں قائم ہونے والے حکومتی سیٹ اپ کے ساتھ بات چیت کریں جب کہ طالبان کا اصرار رہا ہے کہ کابل میں قائم حکومتی ڈھانچہ درحقیقت امریکا کی پرچھائیں اور کٹھ پتلی ہے اور یہ نظام طالبان کو کچھ دینے کے لیے تہی دست وتہی داماں ہے۔ افغانستان کے مسئلے کے دو بنیادی فریق ہیں ایک امریکا جس نے طالبان کی حکومت کو ختم کیا اور نتیجے کے طور پر افغانستان میں مزاحمت کا آغاز ہو گیا اور دوسر ا فریق طالبان ہیں جو مزاحمت کر رہے ہیں۔ امریکا نے اس سوچ کو تسلیم کرنے سے گریز ہی میں عافیت سمجھی۔ وہ ابتدائی زمانے میں تو مذاکرات کا قطعی مخالف رہا اور طالبان کو کچلنے کے موقف پر قائم رہا مگر ہر گزرتے دن کے ساتھ مزاحمت کا دائرہ وسیع اور مضبوط ہوتا چلا گیا جس سے افغان مسئلہ الجھتا چلا گیا۔
طالبان نے روز اول سے مذاکرات سے انکار نہیں کیا مگر ان کا اصرار رہا کہ مذاکرات صرف اصل طاقت یعنی امریکا سے ہوں گے۔ موقف کے لحاظ سے امریکا اور طالبان کی یہ دوری کبھی کم نہ ہو سکی۔ دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر قائم رہے اور افغانستان بدامنی کی آگ میں جھلستا چلا گیا۔ اب سولہ برس کے بعد امریکا نے اس تلخ حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کرکے ہی افغان مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے تو بلاشبہ یہ ایک خوش کن خبر ہے۔ ابھی ان مذاکرات کے مقام اور جزیات کا طے ہونا باقی ہے۔ طالبان کی طرف سے مذاکراتی عمل میں کسی بڑی پیشکش کے بغیر شامل ہونا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے مگر افغان مسئلے کے دو اہم فریقوں کے درمیان مذاکرات کی ایک مشترکہ بنیاد کی دریافت ہو گئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ روسی صدر ولادی میرپیوٹن نے اپنی ملاقات میں مسٹر ٹرمپ کو یقین دلایا ہو کہ افغانستان سے انخلا کی صورت میں روس اور چین اس ملک میں امریکی مفادات کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ اس خوف سے آزاد ہونے کے بعد ہی امریکا نے طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا تلخ گھونٹ پینے کا فیصلہ کر لیا ہو۔
گزشتہ دنوں امریکا کی نائب وزیر خارجہ اور جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کی انچارج ایلس ویلز افغانستان سے پاکستان پہنچی تھیں یہاں انہوں نے کئی اہم ملاقاتیں کیں جن میں قابل ذکر جی ایچ کیو راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل قمرجا وید باجوہ سے ہونے والی ملاقات تھی۔ امریکی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا تھا کہ ایلس ویلز نے جنرل باجوہ سے پاکستانی حدود میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خاتمے پر بات چیت کی اور اس حوالے سے پاکستان کو ٹھوس اقدامات اُٹھانے کو کہا جب کہ خود پاکستان کے ذرائع کے حوالے سے سامنے آنے والی خبر میں کہا گیا کہ جنرل باجوہ نے امریکی اہل کار کو بتایا کہ افغان پناہ گزینوں کے کیمپ دہشت گردوں کے مراکز ہیں۔ افغانستان سے دہشت گرد آکر ان کیمپوں میں چھپ جاتے ہیں اس لیے امریکا افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے اقدامات کرے۔ ایلس ویلز نے کابل کے بعد اسلام آباد میں بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ پاکستان کی حمایت اور تعاون کے بغیر امریکا افغانستان میں اپنے اہداف اور مقاصد حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لیے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے۔
افغانستان کا موجودہ بحران سترہ سال سے جاری ہے اور اس کا آغاز نائن الیون کے واقعات کے ردعمل میں امریکی اقدامات کے بعد ہوا تھا۔ امریکا نے کارپٹ بمباری کرکے افغانستان کو تاراج کیا تھا اور ملا عمر کی حکومت اس بمباری میں خس وخاشاک کی مانند بہہ گئی تھی۔ دو سال تک افغانستان سکتے کی کیفیت میں رہا اور وہاں کوئی قابل ذکر مزاحمت نظر نہیں آئی۔ طالبان بکھر کر رہ گئے تھے اور ان کے منظم ہونے کے بظاہر آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ یہ امریکا کے پاس طالبان کے بہتر متبال نظام کو تشکیل دینے کا نادر موقع تھا مگر امریکا نے یہ وقت محض زورآزمائی اور افغانوں کو سبق سکھانے میں گنوا دیا اور یوں طالبان کے لیے افغان سماج میں گنجائش اور قبولیت پیدا ہوگئی جس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے طالبان دوبارہ منظم ہو کر چھاپا مار کاررائیوں میں مصروف ہوگئے۔ امریکا نے چھاپا مار فورس کے ساتھ مفاہمت اور بات چیت کے دروازے بند کر کے بون کانفرنس کے نام پر ایک کٹھ پتلی نظام تشکیل دیا یہ نظام زمین میں اپنی جڑیں قائم کرنے میں ناکام رہا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کا بحران گہرا اور سنگین ہوتا چلا گیا۔ اس دوران بھارت نے آگے بڑھ کر افغانستان کو اپنی چراگاہ بناکر اسے پاکستان کے گھیراؤ کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ پاکستان کو مسئلے کا حل سمجھنے کے بجائے مسئلہ اور درد سر سمجھنے کی سوچ غالب آگئی اور یوں افغانستان بدامنی کی صلیب پر جھولتا چلا گیا۔ فتح امریکا سے دور ہوتی چلی گئی اور امن افغانستان سے روٹھ گیا۔ امریکا نے ایک جوابی حکمت عملی کے طور افغان جنگ کو پاکستان تک پھیلانے کی کوشش کی مگر پاکستان نے جاں گسل جدوجہد کے بعد ان انگاروں اور شعلوں کو یا تو واپس افغانستان کی طرف دھکیل دیا یا پھر انہیں بجھانے میں کامیاب ہوا۔
سترہ برس بعد امریکا کو یہ احساس ہوگیا ہے کہ طالبان ایک حقیقت ہیں اور پاکستان مسئلہ نہیں بلکہ مسئلے کا حل تو ہے انہیں پاکستان کے تحفظات اور خدشات کو بھی سمجھنا ہوگا۔ یو این سی ایچ آر کے حالیہ اعداد وشمار کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا بھر میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد کی میزبانی کرنے والے ملکوں کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے اور ان پناہ گزینوں میں اصل تعداد افغانوں کی ہے۔ اس میزبانی نے بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے۔ دنیا ان مہاجرین کی باعزت واپسی میں پاکستان کی مدد کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان سرحدوں پر نقل وحرکت روکنے کے باڑھ لگارہا ہے تو اس پر بھی امریکا اور افغانستان ناک بھوں چڑھائے ہوئے ہیں۔ اس کے سوا پاکستان کے پاس مسئلے کے حل کی کون سی گیدڑ سنگھی ہے؟۔ امریکا کو ڈومورکی گردان کے ساتھ ساتھ اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔ پاکستان کی طرف سے باڑھ لگانے کے عمل کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے انتظامات کرنے چاہیں تاکہ پاکستان اپنی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنے کی مضبوط پوزیشن میں آجائے۔ وگرنہ ڈومور کہتے کہتے سترہ برس ضائع ہوگئے امریکیوں کو اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہیے کہ اب بھی ڈومور کا منترا پڑھنے سے منظر آسانی سے بدلنے والا نہیں۔
بے لاگ احتساب !
جیت جانے کی اُمنگ ہے زندگی
دستک
ابو محمد حمزہ
سرینگر
انسانی دنیا میںاندھیرا ہمیشہ کے لئے رہنے والا نہ تھا ،نہ ہے اور نہ ہی رہ سکتا ہے، کیو ں کہ یہ سنت الٰہی ہی کے خلاف ہے۔جہاں اندھیرا چھا جاتا ہے وہیں کچھ لمحات گزرنے کے بعد روشنی کی پو پھوٹتی ہے اور روشنی بھی اس قدر پھیل جاتی ہے کہ جیسے اس سے قبل اندھیرا ہی نہیں تھا۔ ہر کام کی ابتداء اصل سے ہوتی ہے لیکن اصل میں جب غلط یا ملاوٹی مواد ملایا جائے تو اس کے اثرات بھی معدوم ہو کے رہ جاتے ہیں۔ دنیا میں جب کبھی بھی کوئی صالح اور صحیح تبدیلی رونما ہوئی یا ہو رہی ہے اس کے پیچھے بھی یہی بات کارفرما ہے ۔ صالح لوگوں کی محنت سے صالحیت ہی وجود میں آنے کا امکان ہوتا ہے، البتہ جب صالح اور صحیح علم سے بنی نوع انسان بے خبر ہو تو سماج میں صالحیت کے بدلے جہالت جنم لیتی ہے اور یہ جہالت ایسی مہلک بیماری ہے کہ جس شخص وقوم کو لگ جائے ،اسے چھوٹنا پھر مشکل ہو جاتا ہے۔
بنی نوع انسان اگر چاہے تو دنیا کی موجودہ صورت حال کا ایسا خاکہ تیار کیا جا سکتا ہے کہ ہر جانب امن وامان کی ہی فضا چھا جائے ، تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ بنی نوع انسان اپنی اصل پر کھڑا ہو جائے، اور اس کی اصل یہ ہے کہ وہ اپنی اصلیت اور حقیقت جان لے۔ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا میں اس کی یہ ٹھاٹ بھاٹ والی زندگی چند روزہ فانی زندگی ہے اور اس کے بعد ایک ایسی احتسابی عدالت قائم کی جائے گی کہ اس جیسی عدالت نہ آج تک وجود میں آچکی ہے اور نہ ہی اللہ جل شانہ کے بغیر اسے کوئی اور قائم کر سکتا ہے۔ ہر شخص کے رگ وپے میں جب اس عدالت کی اقامت پر یقین ہو جائے گا تو اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور ایک ایک قدم صحیح ہوگا ، اسے یہاں کی عارضی دنیا میں آپ اپنے ساتھ انصاف کر نے اور دوسروں کے لیے خیر خواہ ہونے میں کوئی دقت پیش نہ آئے گی اور وہ دنیا کی اس عارضی گزر بسر میں امن و سکون اور اطمینان قلب کا متلاشی ہو گا ۔ گویا یہ سب کچھ انسان کی اپنی سوچ اور اس کے ذاتی عمل پر منحصر ہے کہ وہ اس دائمی عدالت میں اپنی ابدی جیت چاہتا ہے یا ابدی ہار ۔ اگر وہ یہ احتسابی سوچ رکھتا ہو تو اس کے ہاتھوں اور پورے جسم سے ہونے والے اعمال بھی صحیح ہونے کا امکان ہے، وگرنہ انسان صحیح سوچ اور عمل کا حامل نہ ہو تو دنیا کی اس عارضی زندگی میں ہی اس کا چلنا پھرنا، اس کا اٹھنا بیٹھا اور اس کی زندگی کا ہر لمحہ بنی نوع انسان کے لیے فتنہ سے کم نہیں ہو گا۔
جیسے اوپر بتا یا کہ ’’ انسانی دنیا میںاندھیرا ہمیشہ کے لئے رہنے والا نہ تھا ،نہ ہے اور نہ ہی رہ سکتا ہے۔‘‘ لیکن اگر دنیوی زندگی کے سفر میں بنی نوع انسان میں پریشانی اور بے اطمینانی پیش آئے تو اس کہ وجہ یہ سمجھنی چاہیے کہ خود انسان صحیح راہ پر نہیں کیوں کہ صحیح راہ پر آزمائشیں اور آلام و مصائب تو آنا ممکن ہے لیکن اس راہ پر چلنے سے دل کی کیفیات میں ایک ہمہ گیر خوشی اور طمانیت کااحساس رچ بس جاتا ہے۔ تاہم اگر صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر ہی انسان اپنی اَنا اور جہالت پر قائم رہتے ہوئے اندھیاروں میں ہی رہنا پسند کرے تو اس کی نہ صرف یہ زندگی تباہ وبرباد ہو جانے کا خدشہ ہی موجودنہیں بلکہ اس کی وہ ابدی زندگی بھی جو یہاں سے کوچ کرنے کے بعد ملنے والی ہے،خسارے کی ہی نذر ہو جائے گی۔ غرض بنی نوع انسان چاہے تو اسے ہدایت وراحت کی روشنی مل سکتی ہے اور چاہے تو روشنی کے بدلے اس کی دنیوی زندگی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں بھی اندھیرا چھاسکتا ہے۔ یہ اندھیرا پن باری تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو گی بلکہ اس کا محرک خود انسان ہوں گے جب کہ اللہ کے یہاں عدل وقسط اور رحم ہو گا۔ انہی بنیادوں کو مدنظر رکھ کر انسانو ںکے اعمال کی جانچ پرکھ ہوگی اور پھرایک عادلانہ فیصلہ سنایاجائے جس پر اسے وہ کچھ حاصل ہو گا جس کا وہ حقدار قرار پائے۔ بنی نوع انسان کو عموماً اور ملت اسلامیہ کو خصوصاً اس بات پر پورا پورا یقین و اعتماد ہونا چاہیے کہ ہماری زندگی یہی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس عارضی دنیا کے بعد بھی ایک ابدی زندگی باقی ہے جس دن جس نے دنیوی زندگی میں جو بویا ہو وہ فرداًفرداًاسی کا پھل کاٹے گا۔ عصری دنیا میں مسلمانوں کی رجسٹری میں اپنا نام بہ حیثیت درج ہے، لیکن اگر وہ خدائی رجسٹر جس میں انسانوں کے اپنے اعمال وافعال کی بنیاد پر ابدی کامیابی اور ابدی ناکامی کا فیصلہ ثبت ہے ، ہمارے حق میں اندراجات سے بھرا ہو تو تو ہماری یہ فانی زندگی لافانی تحفوں سے مالامال ہوگی لیکن اگر ہم نے اسے ضائع کیااور اخروی زندگی کے خسارے سے بچنے کی کوئی کوشش وتدبیر نہ کی تو تباہی وبربادی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ اللہ پوری انسانی دنیااُس عدالت کے فیصلۂ خسران وعقوبت سے محفوظ رکھے۔