لندن//سائنس اور بین الاقوامی امورکیلئے بیلفیرسینٹر کے ڈائریکٹر گراہم ایلی سن اورہارورڈ کے جان ایف کینیڈی اسکول کے پروفیسر ڈگلس ڈلن نے ’’داہندو‘‘کے ای میل کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ میںنے اپنی آئندہ کتاب میں ڈیسٹنڈ فار وار:کین امریکہ اینڈ چائنا اسکیپ تھوچی ڈیڈیز کا ٹریپ‘‘ میں زور دیا ہے کہ چین اور امریکہ دونوں طاقتوں کے درمیانٹکراؤ ناگزیر ہیں۔ انہوںنے کہاکہ میں کسی ممکنہ سودے کی کسی خصوصی تفصیلات کے بارے میں قیاس آرائیاں نہیں کرنا چاہتا لیکن میں سوچتا ہوں کہ چین اور امریکہ کے درمیان امن کے لئے مذاکرات ہی واحد راستہ ہے۔اپنی کتاب میں نے لکھا ہے کہ چین اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے تعلق سے کافی مثالیں ہیں جہاں مقابلے کی وجہ سے کافی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اس کے لئے دونوں جماعتوں کو سوچنا ہوگا۔ تیس سال سے امن کی کوششیں جاری ہیں۔تاریخ بتاتی ہیںکہ حریف جماعتیں عدم رواداری سے متفق ہیں اور زیادہ اس کو زیادہ ترجیحات دیتی رہی ہیں۔ چین ۔امریکہ کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوںنے کہا کہ دونوں حکومتوں کے اپنے گھر میں زیادہ مطالبات ہیں ۔ چین کانقطہ نظر دن اور مہینے سے زائد دہائیوں اور صدیوں سے کاایڈوانس ترقی کرنا ہے۔ یہ تاریخی بتاتی ہے کہ طویل سے جاری مسائل کا حل ممکن ہے ۔ 1972 میں شنگھائی میںبات چیت کے ذریعہ اعلامیہ تک پہنچنے میں مدد ملی جو موثر طور پر تائیوان کے مسئلے کو الگ رکھا گیا جو 1978 میں ہوا جب ڈینگ زی پنگ نے جاپان کو تجویز پیش کی کہ مشرقی بحرچین میں جزائر پر تنازعات کو ایک نسل کے لئے ملتوی کیا جائے۔ امریکہ بڑا ہی بے صبرا ہے ۔ممکنہ معاہدے کا مینو بھی طویل اور نتیجہ خیز ہے ۔ جنوب اور مشرقی بحرچین میں تنازعے پر معاہد تمام بین الاقوامی آبی حدود میں تمام بحری جہازوں کے لئے نیوی گیشن کی آزادی کی توثیق کرتا ہے اور اس سے سائبر حملے سے بچنے میں مدد ملے گی ۔