عظمیٰ نیوز سروس
نیویارک //صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکا کو درآمد کی جانے والی زیادہ تر اشیا پر 10 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے ساتھ ساتھ درجنوں حریفوں اور اتحادیوں پر بھی بہت زیادہ محصولات عائد کرنے کے اقدام نے عالمی تجارتی جنگ کو تیز کر دیا، جس سے افراط زر میں اضافے اور ترقی رکنے کا خطرہ ہے۔امریکی صدر نے پاکستان پر 29 فیصد، چین پر 34 فیصد، یورپی یونین پر 20 فیصد، ویتنام پر 46 فیصد، تائیوان پر 32 فیصد، جاپان پر 24 فیصد، بھارت پر 26 فیصد، جنوبی کوریا پر 25 فیصد، تھائی لینڈ پر 26 فیصد، سوئٹزرلینڈ پر 31 فیصد،انڈونیشیا پر 32 فیصد، ملائیشیا پر 24 فیصد، کمبوڈیا پر 49 فیصد، برطانیہ پر 10 فیصد ٹیکس عائد کیا۔ وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن کے پرسکون پس منظر میں اعلان کردہ بھاری ٹیکسز نے فوری طور پر عالمی مارکیٹوں میں ہلچل مچا دی اور دیگر رہنماؤں کی جانب سے اس کی مذمت کی گئی، جو کہ اب دہائیوں سے جاری تجارتی لبرلائزیشن کے خاتمے کا سامنا کر رہے ہیں جس نے عالمی نظام کو تشکیل دیا ہے۔جمعرات کے روز ایشیا کو یہ خبر ہضم ہونے کے ساتھ ہی جاپان کا نکی شیئر انڈیکس 8 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گیا، امریکی اور یورپی اسٹاک فیوچرز میں بھی گراوٹ دیکھی گئی، کیونکہ سرمایہ کاروں کا رجحان بانڈز اور سونے کی جانب تھا۔بظاہر امریکی خزانہ کے سربراہ اسکاٹ بیسنٹ کے انتباہ پر کوئی توجہ نہیں دی کہ اس طرح کے اقدامات کشیدگی میں اضافے کا باعث بنیں گے۔چین (جو دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے) کو اب ٹرمپ کے پہلے سے عائد 20 فیصد سے زیادہ 34 فیصد نئے ٹیرف کا سامنا ہے، چینی حکومت نے امریکا پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر اپنے تازہ ترین محصولات کو منسوخ کرے اور جوابی اقدامات کا عزم دہرایا۔یو ایس ٹریڑری کے سربراہ اسکاٹ بیسنٹ نے ’سی این این‘ سے گفتگو میں دوسری قوموں پر زور دیا کہ وہ جوابی کارروائی نہ کریں، ایسی حرکتوں سے دور رہیں، جن سے سائیکلوں سے لے کر شراب تک ہر چیز صارفین کے لیے ڈرامائی طور پر مہنگی ہوجائے، اگر آپ جوابی کارروائی کرتے ہیں تو ہم بھی اسی شرح سے ٹیکس مزید بڑھائیں گے۔اسکاٹ بیسنٹ نے کہا کہ ہم تجارت میں خسارے والا ملک ہیں، جب کہ دیگر ممالک سرپلس پوزیشن پر ہیں، اس لیے ان کی جانب سے جوابی اقدامات غیردانشمدانہ ہوں گے۔جاپان اور یورپی یونین جیسے قریبی اتحادیوں کو بالترتیب 24 فیصد اور 20 فیصد ٹیرف کی شرحوں کا سامنا کرنا پڑا، بیس 10 فیصد ٹیرف 5 اپریل سے نافذ العمل ہوں گے، اور زائد دوطرفہ نرخ 9 اپریل سے نافذ العمل ہوں گے۔ٹوکیو نے کہا کہ وہ ’انتہائی افسوس ناک‘ ڈیوٹیز کا جواب دینے کے لیے تمام آپشنز ترک کر رہا ہے۔بنیادی 10 فیصد ٹیرف 5 اپریل سے نافذ ہوں گے اور 9 اپریل کو زائد نرخ کے حامل ٹیرف فعال ہوجائیں گے۔فچ ریٹنگز میں امریکی تحقیق کے سربراہ کے مطابق، مؤثر امریکی درآمدی ٹیکس کی شرح 2024 میں صرف 2.5 فیصد سے بڑھ کر ٹرمپ کے دور میں 22 فیصد ہوگئی ہے۔اولو سونولا نے کہا کہ یہ شرح آخری بار 1910 کے آس پاس دیکھی گئی تھی، یہ نا صرف امریکی معیشت بلکہ عالمی معیشت کے لیے ایک گیم چینجر ہے، بہت سے ممالک ممکنہ طور پر کساد بازاری کا شکار ہوں گے، اگر یہ ٹیرف کی شرح طویل مدت تک برقرار رہتی ہے تو آپ زیادہ تر پیش گوئیوں کو باہر پھینک سکتے ہیں۔ٹرمپ نے کہا کہ ان کے ٹیرف باہمی محصولات، امریکی اشیا پر عائد ڈیوٹیوں اور دیگر نان ٹیرف رکاوٹوں کا جواب ہیں، انہوں نے دلیل دی کہ نئے لیویز سے گھر پر مینوفیکچرنگ کی ملازمتوں کو فروغ ملے گا۔ٹرمپ نے کہا کہ کئی دہائیوں سے ہمارے ملک کو قریب اور دور کی قوموں نے لوٹا، لوٹا، اور لوٹ مار کی، دوست اور دشمن ایک جیسے ہیں۔بیرونی ماہرین اقتصادیات نے خبردار کیا ہے کہ محصولات عالمی معیشت کو سست کر سکتے ہیں، کساد بازاری کا خطرہ بڑھا سکتے ہیں، اور اوسط امریکی خاندان کے لیے زندگی کے اخراجات ہزاروں ڈالر تک بڑھ سکتے ہیں۔کینیڈا اور میکسیکو (امریکا کے دو سب سے بڑے تجارتی شراکت دار) پہلے ہی بہت سے سامان پر 25 فیصد ٹیرف کا سامنا کر رہے ہیں، اور بدھ کے اعلان سے انہیں اضافی محصولات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔یہاں تک کہ کچھ ساتھی ریپبلکنز نے بھی ٹرمپ کی جارحانہ تجارتی پالیسی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔یورپی رہنماؤں نے مایوسی کے ساتھ ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’تجارتی جنگ‘ سے صارفین کو نقصان پہنچے گا، اور کسی بھی فریق کو فائدہ نہیں ہوگا۔