گزشتہ دنوں امر یکی صدر ٹرمپ نے کھلے عام چیتاؤنی دی کہ اگر امر یکہ شاہانِ سعود کی محافظت اور مدد نہ کرے، ان کاقصہ ود ہفتوں میں تما م ہوگا ۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان چپقلشوں اور شکر رنجیوں کے پس منظر میں ایک مبنی بر حقیقت اعلان ہے ۔عراق کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ اور امریکہ کی طرف سے مسلسل لگائی گئی تجارتی پابندیوں کے باوجود مشرق وسطیٰ کے تعلق سے ایران کے عزائم اور حوصلے ابھی تک سرد نہیں ہوئے ہیں ۔ اس نے روس کی مدد سے عراق شام لبنان یمن اور بحرین وغیرہ میں اپنی ملیشیاؤں کا ایک زبردست نیٹ ورک پھیلایا ہوا ہے تاکہ وقت آنے پر وہ اپنے عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچا سکے۔ ایران کے مقابلے میں آل سعود کی کیا اوقات ہے، ا س بارے میں ٹرمپ کا حالیہ بیان چشم کشا ہے۔ جو لوگ حرمین شریفین کی حفاظت نہیں کرسکتے وہ مملکت حجاز کی کیا حفاظت کرسکتے ہیں ؟سن اسی کی دہائی میں ایرانی انقلاب کے فوراً بعد جب کچھ شرپسندوں نے حرم شریف میں گھس کر فساد برپا کرنے کی ناپاک کوشش کی تو اس وقت کے سعودی حکمران شاہ خالد کو پاکستانی فوج کی مدد لینا پڑی ۔ پاکستانی فوجی کمانڈروں نے جس حکمت ودانائی سے حر م ِمکہ میں جاگھسے دہشت گردوں کو زندہ گرفتار کیا ،وہ ان کا ایک بڑا کارنامہ ہے ۔ سعودی شاہوں کی اس کمزوری کے باوجود کچھ سعود نواز دوست اکثر حاجیوں کی خدمت کرنے پر سعودی حکمرانوں کے حق میں تعریفوں کے پل باندھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آل سعود میں صلاحیت نہ ہوتی تو یہ حکومت اتنے سالوں سے کیسے قائم رہتی ؟ انہیں کیسے سمجھایا جائے کہ بغیر فوج کے نظام حیدرآباد کی حکومت بھی دوسو سال تک قائم رہی مگر آزادی ٔ ہند کے ساتھ جب برطانیہ کا لاؤلشکر برصغیر سے ہجرت کرگیا تو نظام کا سارا رومانس ختم ہوگیا ۔ آج کی مملکت سعود یہ کےساتھ امریکہ کا یہی رومانس ایک کھلی کتاب کی طرح واضح ہے ۔ اس رومانس کو دلچسپ اور پر لطف بنانے میں سعودی تیل کے کنوؤں کا اہم کردار ہے ورنہ امریکی کھجور تو کھاتے نہیں ! شراب اور شباب کے ساتھ گوشت ان کی مرغوب غذا ہے، جس کا لطف وہ عرب کے گرم اور خشک صحرا میں اٹھانے کے کبھی روادار نہیں ہوسکتے ۔ سیاحت کیلئے امریکہ کے اپنے برفیلے علاقے عرب کے جلتے ہوئے ریگستانوں سے بدرجہا بہتر ہیں جہاں برفیلی وادیاں ہیں اور ان وادیوں میں رنگین خوبصورت نیلے پیلے سرخ اور سنہری فاختاؤں اور کبوتروں کے ساتھ ساتھ خوبصورت حسیناؤں کے جابجا جھر مٹ ہوتے ہیں۔ یہ نظارے ان کے لئے شداد کی جنت سے کم نہیں ہوتے ۔ البتہ پٹرول، اسلحہ اور بڑی بڑی تعمیرات کے ٹھیکوں سے حاصل ہونے والی دولت نے مملکت سعود یہ کو امریکہ کے واسطے سونے کی چڑیا بنا دیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ امریکہ سونے کی اس چڑیا کو اتنی آسانی سے ایران کے حوالے کیسے ہونے دے گا ؟ شاید یہی وہ خلش ہے جو ایران کو مجبور کرتی ہے کہ وہ مملکت سعود کے اندر بغاوت کا ماحول پیدا کر تی رہے ۔
کچھ سال پہلے جب شاہ عبداللہ کے بعد شاہ سلمان کی تاج پوشی ہوئی تو یار لوگوں نےاسی وقت بھانپ لیا کہ ۳۲ ؍ سالہ بن سلمان کیلئے مملکت سعود کی ولی عہدی کا راستہ ہموار کیا جارہاہے ۔ تہران کے لئے بن سلمان کی ولی عہدی اس لیے بھی خطرے کی گھنٹی تھی کہ وہ اپنی غیر اسلامی لبرل سوچ کے دروازے سے ایران کے دشمن یعنی امریکہ اور اسرائیل سے مزید قربت اختیار کرنے کا خواہاں ہے ۔ چنانچہ یمن میں بن سلمان کی قیادت میں سعودی حکومت نے امریکہ کے ساتھ مل کر ایران کے خلاف محاذ نہ کھولا ہوتا تو ایران شام اورعراق کی طرح مملکت سعود میں بھی قدم پیوست کردیتا ۔ ویسے ہر دشمن ملک اپنے مخالف دشمن ملک میں اپنے جاسوسی نیٹ ورک کا جال بچھائے رکھتا ہے اور اب دنیا کے بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز کو بھی خر یدا جاتا ہے ۔ ’’الجزیرہ‘‘ بھی سعودیہ مخالف بیرونی ایجنسیوں کے رابطے میں ہیں ۔ کہا جاتاہے کہ’’الجزیرہ‘‘ عرب دنیا میں ایران نوازی پر عامل ہے اور بدل اشتراک کے طور یہ تہران کے پے رول پر ہے ۔ خیر ایران کے پاس توآٹھ لاکھ پر مشتمل فوج کے ساتھ خلیج کی آٹھ سالہ جنگ میں اپنی ایک فیصد آبادی کو جھونکنے کا تجربہ بھی ہے ، اس بات کے پیش نظر مملکت سعود پر ناز کرنے والے دعا کریں کہ امریکہ سلامت رہے اور اللہ تعالیٰ پٹرول میں برکت دے ،ورنہ برطانیہ کے بعد نظام حیدرآباد کی جو دُرگت ہوئی تھی، امریکہ کا ساتھ نہ رہے تو سعود نواز دو ہفتے بھی خوش نہیں رہ سکتے ۔ یہ بات ٹرمپ نے امریکہ کے ایک شہر ساؤتھ ہیون میں ایک پرجوش ہجوم کے سامنے بہت ہی حقارت اور ذلت آمیز لہجے میں کہہ بھی ڈالی کہ اگر ہم دنیا کی امیر ترین مملکت سعود یہ کے شہزادوں کی حفاظت نہ کریں تو ان کا یہ سارا رومانس دو ہفتے میں ختم ہوجائے گا ! ۔
ای میل : [email protected]