یو این آئی
تل ابیب//اسرائیلی میڈیا نے بتایا ہے کہ پیر کی شام اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور امریکی صدر ٹرمپ کے درمیان ہونے والی فون کال میں ایرانی جوہری مسئلے اور غزہ کی جنگ پر توجہ مرکوز کی گئی۔عبرانی اخبار ‘‘ یدیعوت احرونوت’’ نے رپورٹ کیا ہے کہ دونوں کے درمیان بات چیت تقریباً 40 منٹ تک جاری رہی میں ایک نئے جوہری معاہدے کے حوالے سے تہران اور واشنگٹن کے درمیان جاری مذاکرات کی روشنی میں ایرانی مسئلے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔اسرائیلی اخبار کے مطابق اس کال میں غزہ میں قیدیوں کے معاملے پر بھی بات کی گئی، یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات ختم ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی اپوزیشن اور قیدیوں کے اہل خانہ نیتن یاہو پر اپنے ذاتی سیاسی مفادات بالخصوص اپنی مسلسل حکمرانی کے حصول کے لیے اپنی حکومت میں موجود دائیں بازو کے دھڑے کے جواب میں جنگ جاری رکھنے کا الزام لگاتے ہیں۔تل ابیب کے اندازے کے مطابق غزہ میں 56 اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں جن میں سے 20 زندہ ہیں۔ یاہو ٹرمپ کے ساتھ اپنی کال کے بعد ایک مختصر سیکورٹی جائزہ لینے والے ہیں۔ اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران نے پیر کے اوائل میں اعلان کیا ہے کہ وہ نئے جوہری معاہدے کے بارے میں امریکہ کی طرف سے مقرر کردہ شرائط کے خلاف جوابی پیشکش پیش کرے گا۔اخبار کے مطابق اپریل سے واشنگٹن اور تہران نے مذاکرات کے پانچ دور کیے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان ایران کی یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کی صلاحیت پر اختلافات کی وجہ سے مذاکرات فی الحال ختم ہو گئے ہیں۔ ایک متعلقہ سیاق و سباق میں نجی اسرائیلی چینل 14 نے اطلاع دی ہے کہ نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان کال کا بنیادی مرکز ایرانی مسئلہ تھا۔ اس میں مزید کہا گیا کہ تقریباً دو ماہ قبل امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کے لیے 60 دن کی مہلت دیں گے ۔ اب صرف تین دن میں یہ ڈیڈ لائن ختم ہو جائے گی۔