یواین آئی
واشنگٹن// امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے معروف تعلیمی ادارے ہارورڈ یونیورسٹی کے خلاف اپنی کارروائی تیز کردی ہے اور اس کی وفاقی مالی معاونت تک رسائی پر نئی پابندیاں عائد کردی ہیں۔وزارتِ تعلیم نے اعلان کیا ہے کہ ہارورڈ کو “مالی نگرانی کی سخت فہرست” میں ڈال دیا گیا ہے، جس کے تحت اسے پہلے اپنی رقوم سے طلبہ کو امداد دینا ہو گی اور بعد میں وفاقی فنڈز نکالنے کی اجازت ملے گی۔حکومت نے اس اقدام کی وجہ یونیورسٹی کے “مالی حالات پر شکوک” کو قرار دیا ہے۔ وزارت نے ہارورڈ سے 3 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا ضمانتی خط بھی طلب کیا ہے تاکہ وہ اپنی مالی ذمے داریوں کی ادائیگی یقینی بنا سکے۔ٹرمپ پہلے ہی جامعات پر سخت اقدامات کر چکے ہیں اور اسرائیل کے خلاف مظاہروں، صنفی و ماحولیاتی پالیسیوں اور تنوع کے پروگراموں کے باعث وفاقی فنڈنگ روکنے کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ وزارتِ تعلیم نے مزید خبردار کیا ہے کہ اگر ہارورڈ نے شہری حقوق کے دفتر کو مطلوبہ ریکارڈ نہ دیا تو اسے مزید فنڈز سے محروم کیا جا سکتا ہے، اور معاملہ قانون نافذ کرنے والے اداروں تک بھی جا سکتا ہے۔یہ تحقیقات اس پہلو پر بھی مرکوز ہیں کہ آیا ہارورڈ یونیورسٹی اب بھی داخلوں کے فیصلوں میں نسلی پس منظر شامل کر رہا ہے، حالانکہ سپریم کورٹ نے 2023 میں اس عمل کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ادھر حکومت نے حال ہی میں کولمبیا یونیورسٹی اور براؤن یونیورسٹی کے ساتھ تصفیے کیے ہیں، جنہوں نے بالترتیب 22 کروڑ اور 5 کروڑ ڈالر کی ادائیگی پر اتفاق کیا۔ ٹرمپ نے کہا کہ ہارورڈ کو کم از کم 50 کروڑ ڈالر ادا کرنے چاہئیں۔اسی دوران یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس کے خلاف ایک علیحدہ کیس میں حکومت نے ایک ارب ڈالر کا تصفیہ تجویز کیا۔ اسے کیلیفورنیا کے گورنر نے “بلیک میلنگ” قرار دیا ہے۔ یونیورسٹی نے بتایا کہ حکومت نے اس کے تقریباً 60 کروڑ ڈالر کے فنڈز پہلے ہی منجمد کر رکھے ہیں۔ہارورڈ نے اس تمام صورتِ حال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔