قصرسفیدکے فرعون نے اقتدارسنبھالتے ہی جس تیزی کے ساتھ احکامات جاری کرنے شروع کردیئے تھے اس سے نہ صرف پورے یورپ بلکہ ساری دنیامیں خوداس کے اتحادیوں میں سخت تشویش کی لہردوڑگئی ہے اورخودامریکاکی کئی ریاستوں میں انتظامی سطح پرکئی اعلیٰ افسران استعفے دیکرگھروں کوواپس لوٹ گئے ہیں ۔ڈونلڈٹرمپ نے جونہی سات مسلم ممالک کے شہریوں کی امریکامیں داخلے پرپابندی کے ایگزیکٹوآرڈرپردستخط کئے توفوری طورپرامریکاکے ہوائی اڈوں اوردوسری تمام سرحدوں پرامیگریشن حکام نے ہزاروں مسافروں کوداخلے کی جازت دینے سے انکارکردیالیکن امریکاکی اٹارنی جنرل ’’سیلی ایٹس ‘‘(Sally Yates) نے فوری طورپرصدرکے ان احکام پرعملدرآمدروکنے کااعلان کردیاجس پرقصرسفیدنے فوری طورپراس کوبرطرف کرکے اپناایک خاص ساتھی اس منصب پرمقررکردیاجس پراعلیٰ عدالت حرکت میں آگئی اوراس نے صدرکے احکام کومنسوخ کرنے کاحکم دے دیاجس پرامریکاکے ہوائی اڈوں پرمسلمان مسافروں کوامریکامیں داخلے کی اجازت مل گئی۔وائٹ ہاؤس نے اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل بھی کی جسے بعدازاں مستردکردیاگیابعدازاں سابقہ حکم نامے میں معمولی تبدیلی کرکے اس کوپھرسے جاری کردیاگیاہے لیکن امریکاکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی امریکی صدرنے براہِ راست اعلیٰ عدالت پراعتراضات کی ایسی بوچھاڑکی ہے کہ خودامریکاکے اتحادی ممالک حیران وپریشان ہیں۔
ٹرمپ کے ان اقداامات کے بارے میں تقریباً چار ماہ قبل۱۸نومبر۲۰۱۶ء کوبرطانیہ کے مشہوراخبارانڈی پینڈنٹ میں پیٹرک کاک برن نے اپنے ایک تجزیاتی آرٹیکل ’’ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ میں تباہی لائے گا‘‘ میں خبردارکردیاتھا۔اس آرٹیکل کوپڑھ کرٹرمپ کے بارے میں تشویش بڑھی اورجب اس نے ۲۵جنوری کوایکشن میں آنے کامظاہرہ کیاتوپریشانی انتہاء کوپہنچتی محسوس ہوئی اورواضح ہوگیاکہ قصرسفیدکانیافرعون مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں بلکہ پوری دنیااورخودامریکامیں بھی تباہی کاپیامبرثابت ہوگا۔موصوف نے اپنے پہلے ایگزیکٹو آرڈر میں جہاں سات مسلمان ممالک پرپابندی کاحکم جاری کیاوہاں میکسیکوسرحدپردوہزارمیل لمبی دیواربنانے کابھی اعلان کردیااورتارکین وطن کے خلاف فوری کریک ڈاؤن کی بھی منظوری دے دی۔اس اجمال کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتاہے کہ پیٹرک کاک برن کے مذکورہ تجزیہ پرطائرانہ نظرڈال لی جائے۔
’’افغانستان میں داعش کے جنگجوابوعمرخراسانی سے منسوب ایک بیان سامنے آیا’’ہمارے لیڈرامریکی انتخابات کاقریبی جائزہ لے رہے تھے لیکن ہمارے لئے یہ بات غیرمتوقع تھی کہ امریکی اپنے ہاتھوں ہی سے اپنی قبریں کھودنے کافیصلہ کریں گے‘‘۔خراسانی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاکہ ٹرمپ کی مسلمانوں سے نفرت کی وجہ سے داعش کومسلم ریاستوں سے ہزاروں جنگجوبھرتی کرنے میں مددملے گی۔داعش کااندازہ ہے جیساکہ نائن الیون کے بعددیکھنے میں آیا،مسلمانوں کواجتماعی برائی بناکرپیش کرنے اورسب کواجتماعی سزا دینے سے مسلمانوں کی آبادی کاایک خاطرخواہ حصہ مشتعل ہوکرجہادی دستوں میں شمولیت اختیارکرے گا۔اس وقت دنیابھرمیں مسلمانوں کی تعدادایک ارب ساٹھ کروڑ سے زائد ہے ۔القاعدہ ،داعش اوردیگرعسکری تنظیموں کواپنی طاقت برقراررکھنے کیلئے اس آبادی کے تھوڑے حصے کی حمائت بھی کافی ہوگی۔
حالیہ امریکی انتخابات میں مسلمانوں کوسبق سکھانے کے نعروں نے ٹرمپ کی نمایاں کامیابی میں کلیدی کرداراداکیا۔ایک موقع پر ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے وعدہ کیاکہ وہ تمام مسلمانوں کوامریکامیں داخل ہونے سے روک دیں گے،بعدمیں انہوں نے اپنے عزم میں ترمیم کرتے ہوئے صرف ’’انتہاء پسندی پرمائل مسلمانوں‘‘کوداخل ہونے سے روکا جائے گا۔اس دوران پانی سے تشددکرنے کوسراہاگیا،نیزہلری کلنٹن کو’’دہشتگردی‘‘کے خلاف نہ بولنے پرسخت تنقیدکانشانہ بنایاگیا۔ہوسکتاہے کہ ٹرمپ اوران کے حامی یہ سوچ رہے ہوں کہ ان نعروں کوہنگامی اشتعال قراردیکرنظراندازکردیاجائے گالیکن داعش اورالقاعدہ کی پروپیگنڈہ ٹیم اس بات کویقینی بنائے گی کہ ٹرمپ کے الفاظ کوبارباردہراتے ہوئے عوامی یادداشت سے محونہ ہونے دیاجائے تاکہ شدیدنفرت کاڈنک اپنااثربرقراررکھے۔اگرنومنتخب صدرٹرمپ کی نئی انتظامیہ کی سیکورٹی اورخارجہ پالیسی ٹیم کے کچھ ارکان کاٹریک ریکارڈدیکھیں تواندازہ ہوجائے گاکہ مسلمانوں سے تعصب کوئی پروپیگنڈہ یاڈھکی چھپی بات نہیں اورنہ ہی اس میں مبالغہ آرائی کاعنصرشامل ہے۔جنرل فلائن ڈیفنس انٹیلی جنس کے سربراہ تھے اوراس عہدے ہی سے صدراوبامانے انہیں ۲۰۱۴ء میں ہٹایاتھا۔فلائن کے حوالے سے یہ بات سب کے علم میں ہے کہ وہ انتہاء پسندی کوصرف ایک عمومی مسئلہ نہیں بلکہ امریکاکی سلامتی کیلئے سب سے بڑاخطرہ سمجھتے ہیں ۔انہوں نے سالِ رواں کے آغاز میں اپنے اایک ٹوئٹ میں کہاتھاکہ مسلمانوں سے خطرہ حقیقی ہے ۔فلائی کے جنونیت اورخودپارسائی پرمبنی انتہائی رویے انہیں اس صف میں لے گئے جہاں ہلری کلنٹن کے خلاف نعرے بازی جاری تھی۔جنرل فلائن کے دیگرساتھیوں کوخدشہ ہے کہ ان کی انتہائی محدوداوریک طرفہ سیاسی سوچ مشرقِ وسطیٰ کومزیدتباہی سے دوچارکرسکتی ہے۔ان کی مشاورتی کمیٹی ’’فلائن انٹیلی گروپ‘‘ ترک حکومت کیلئے لابنگ کرتی ہے۔انہوں نے حالیہ دنوں میں ایک مضمون میں ترکی کیلئے بھرپورامریکی حمائت کامطالبہ کیا۔واضح رہے کہ اس وقت ترکی ،عراق اورشام میں بڑے پیمانے پرفوجی کاروائیاں کرنے کاارادہ رکھتاہے۔ایسے میں ترک صدرکی طرف سے ٹرمپ کی کامیابی کاخیرمقدم قابل فہم ہے ۔ صدراردگان کے ٹرمپ کے خلاف امریکا میں ہونے والے مظاہروں پرتنقیدبھی کی۔
ٹرمپ انتظامیہ میں اعلیٰ عہدوں کے امیدواروں کی پروفائل ظاہرکرتی ہے کہ واشنگٹن کے معیاری رویے سے کہیں زیادہ ذاتی مفادکے طلبگارہیں۔ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ایک نعرہ لگایاتھاکہ’’گندہ پانی باہرنکالو‘‘اس سے مزیدبدعنوان افسروں کی چھٹی تھی لیکن عملی طورپردیکھنے میں یہ آرہاہے کہ نئی انتظامیہ کے پائپ کے ذریعے سے مزیدگندہ پانی اندر داخل ہوجائے گا۔ایک ناخوشگوارمثال روڈی جولیانی کی ہے جونائن الیون کے سانحے کے وقت نیویارک کے میئرتھے اورانہوں نے واقعات اوراپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاکرغیر ملکی حکومتوں اورکمپنیوں سے بات کرنے کے عوض کئی ملین ڈالرکھرے کئے۔اس وقت انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ان کی جیب میں رقم کس طرف سے آرہی ہے۔انہوں نے ۲۰۱۱ء اور۲۰۱۲ء میں منحرف ایرانیوں کی تنظیم مجاہدین خلق کی حمائت میں تقریریں کیں حالانکہ اس کاشمار امریکی محکمہ خارجہ کی ترتیب دی ہوئی فہرست کے مطابق دہشتگردتنظیموں میں ہوتاہے جولیانی ایک مسخ شدہ کردارکے طورپرمشہورہیںلیکن انہوں نے ٹرمپ کیلئے اٹارنی جنرل کے منصب کی پیشکش کوٹھکرادیا۔
ہوسکتاہے کہ داعش اورالقاعدہ درست اندازہ نہ لگاسکیں کہ ٹرمپ کی کامیابی انہیں کس حدتک فائدہ پہنچاسکتی ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ کچھ عرصے سے ان دونوں کوسخت دباؤ اور مشکلات کاسامناتھالیکن اب وہ اپنی خوش بختی پرنازاں ہیں۔ٹرمپ اوران کے لاکھوں حامی مسلمانوں کوڈراچکے ہیںکہ وہ اپنی پالیسیوں سے یہ سلسلہ جاری رکھیں گے اوریوں انہوں نے انتہاء پسندتنظیموں کوپھلنے پھولنے کاموقع فراہم کردیاہے۔ان کابیانیہ انتہاء پسندوں کوراس آرہاہے کیونکہ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ مغرب کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف شدیدتعصب کی آندھی چلے تاکہ وہ (مسلمان)ان کے انتہائی نظریات کی طرف کھنچے چلے آئیں۔ان تنظیموں کے خلاف کاروائی کانشانہ تمام مسلمان بن جاتے ہیں،اس طرح وہ ان کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتے ہیں۔نائن الیون کوجس چیزنے اسامہ بن لادن کیلئے کامیاب واقعہ بنادیاوہ ورلدٹریڈسنٹرکی تباہی نہ تھابلکہ امریکی اوراتحادی افواج کا افغانستان اور پھرعراق میں جاناتھا۔یہ صورتحال اب بھی پیش آسکتی ہے۔ موصل کے محاصرے کے باعث داعش کے خستہ حال لیڈرابوبکرالبغدادی کے سامنے کچھ دیگرطویل المدت اہداف ہوں گے۔طالبان،القاعدہ اورداعش دوانتہائی نظریات رکھنے والی تنظیمیں ہیںجنہوں نے افغانستان اورعراق کی جنگوں سے پھیلنے والی تباہی اورشورش سے جنم لیا ۔ اب یہ شام، لیبیا ، یمن،صومالیہ اوردیگرعلاقوں میں جاری افراتفری اورلاقانونیت کی فضامیں پروان چڑھ رہی ہیں۔تھیوری کی حد تک ٹرمپ امریکاکی مشرقِ وسطیٰ اورشمالی افریقہ میں فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔وہ شام میں جاری اسد کے جنگی جنون کاخاتمہ چاہتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ ایران سے کئے گئے جوہری معاہدے کے بھی خلاف ہیں۔انہوں نے ۲۰۱۱ء میں عراق سے فوجی دستے نکالنے پراوباماکوسخت تنقیدکانشانہ بنایاتھا(حالانکہ اس معاہدے پرری پبلکن صدر جارج ڈبلیوبش دستخط کرچکے تھے)تاہم بش اوراوباما دونوں ہی شروع میں عدم مداخلت کے حامی تھے یہاں تک کہ واقعات کے دھارے اورواشنگٹن کی خارجہ پالیسی کی سمت نے سب کچھ تبدیل کردیا۔آج امریکی فوج اورائرفورس عراق اورشام میں کارروائیوں میں مصروف ہیں۔صدراوباماکی وائٹ ہاؤس سے رخصتی کے ساتھ ہی یہ کاروائیاں ختم نہیں ہو جائیں گی۔ٹرمپ کی عدم مداخلت کی پالیسی ایک طرف ان کی خارجہ پالیسی کے اہم ترین ارکان مثلاًجان بولٹن جواقوام متحدہ میں امریکاکے جارحانہ رویے رکھنے والے سفارت کار ہیں ،۲۰۰۳ء سے ہی ایران پرحملے کی حرکات کررہے ہیں۔بولٹن کی ایک تجویز(گوکہ زمینی حقائق ان کی لاعلمی کی غمازی کرتے ہیں)یہ بھی تھی کہ شمالی عراق اورمشرقی شام کوملاکرسنی مسلک والی ریاست بنادی جائے تاہم خطے کے حالات کومزیدبگاڑنے کیلئے اس سے ’’بہتر‘‘فارمولے کاتصوربھی محال ہے۔
واشنگٹن میں ایسے خبطی افرادکی کمی نہیں لیکن ان میں سے کچھ اعلیٰ عہدوں پرفائزہوتے ہیں۔خدشہ ہے کہ آنے والی انتظامیہ میں ایسے افرادکی ریکارڈ تعدادہوگی۔امریکی تاریخ شائد ہی اتنے خبطی افرادکی انتظامیہ میں شمولیت کی مثال پیش کرسکے۔’’دی ڈیلی بیسٹ‘‘کے شین ہیرس اورنینسی یوسف کے مطابق ٹرمپ کی نیشنل سیکورٹی کی عارضی ٹیم میں ’’سی نو شریعہ(See no Sharia) کے مصنف کلیئرلوپز(Clare Lopez) بھی شامل ہیں۔ان کاکہناہے کہ انتہاء پسندخاص طورپراخوان المسلمون کے ایجنٹ وائٹ ہاؤس ، ایف بی آئی اورریاستی اداروں میں سرائیت کرتے جارہے ہیں۔لوپزکویقین ہے کہ ۲۰۰۸ء میں رونماہونے والے مالیاتی بحران کی پشت پردہشتگردوں کاہاتھ تھا۔دوسری طرف رجائیت پسندوں کاکہنا ہے کہ ٹرمپ اتنے نظریاتی شخص نہیں جتنے نظردکھائی دیتے ہیں اورپھرامریکی جہاز(ریاستی امور)کوئی اسپیڈبوٹ نہیں بلکہ سمندرمیں تیرتاہوا دیوہیکل لائنزہے،اس کارُخ یک لخت نہیں موڑاجاسکتا۔ان کاکہناہے کہ یہ ممکن نہیں کہ ’’ملازمت‘‘کے امیدوارتمام خبطی اعلیٰ عہدے حاصل کرپائیں،ان میں چندایک ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔بدقسمتی سے یہی کچھ نائن الیون سے پہلے بش کے دور میں بھی کہاگیاتھا۔کوئی بھی انتہائی سوچ رکھنے والاشخص تباہ کن فیصلہ کرگیاہے چنانچہ داعش اچھے وقت کی امیدکادامن تھامے رہنے میں حق بجانب ہے‘‘۔’’پیٹرک کاک برن‘‘نے ٹرمپ کی ضمناًتباہی کی طرف اشارے کردیئے ہیں۔داعش کوتوپیداکرنے والاہی خودامریکابہادرہے۔ہلری کلنٹن اپنی کتاب میں اس کااعلانیہ اعتراف کرچکی ہیں،بہرحال انڈی پینڈنٹ کے ڈھائی ماہ قبل بیان کردہ احوال کاسلسلہ اب تازہ ترین حقائق سے جوڑتے ہیں کہ عصرحاضرکے انتہائی محیرالعقول امریکی سربراہ نے ۲۵؍ جنوری بروزبدھ ہوم لینڈسیکورٹی آفس کادورۂ کیاجہاں انہیں پناہ گزینوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔اس موقع پرامریکی صدرنے دوایگزیکٹوآرڈرزپردستخط کردئے ، پہلا آرڈر میکسیکو کی سرحدپردوہزارمیل دیوراتعمیرکرنے جب کہ دوسراامریکامیں غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن سے متعلق ہے۔دوسرے آرڈرکے مطابق امریکامیں سلامتی کی صورتحال بہتربنانے کیلئے مزیداقدامات کئے جائیں گے۔
اقوام متحدہ کی تاریخ میں یہ پہلاموقع ہے کہ حقوقِ انسانی کے لیے اقوامِ متحدہ کے اعلی ترین عہدیدار زید رعد الحسین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پرنفرت پر مبنی جرائم کو ہوا دینے ، ججوں اور صحافیوں کو دھمکانے اور تارکین ِوطن کی ملک بدری میں تیزی اجتماعی اخراج اور جبری بے دخلی کا الزام عائدکرتے ہوئے کہاہے کہ ایسے اقدامات کا بچوں اور خاندانوں پر برا اثر پڑے گا اور وہ ٹوٹ کر رہ جائیں گے،وہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہورہے ہیں اوراب امریکا کو ایک بہتر قیادت کی ضرورت ہے جو کہ غیرملکیوں سے نفرت اور مذہبی امتیاز جیسے خطرناک چیلنجز کا مقابلہ کر سکے۔یو این رائٹس کونسل کے سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے زید بن رعد زید الحسین کا کہنا تھا کہ’’ امریکا کی نئی انتظامیہ جس طریقے سے حقوقِ انسانی کے کئی معاملات سے نمٹ رہی ہے، مجھے اس پر خدشات ہیں۔ نسلی امتیاز، یہود مخالف جذبات اور نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافے جیسے معاملات سے نمٹنے کے لیے ایک مستقل مزاج قیادت ضروری ہے۔ امریکا کی نئی قیادت کی جانب سے مسلمانوں اور میکسیکنز جیسے گروپوں کو بدنام کیا جانا اور تارکین وطن میں جرائم کی شرح زیادہ ہونے جیسے جھوٹے دعوے، غیرملکیوں سے نفرت کی بنیاد پر برے سلوک کو بڑھاوا دے رہی ہیں۔صدر کی جانب سے ججوں اور صحافیوں کو دھمکانے کی کوششوں سے خوش نہیں‘‘۔واضح رہے کہ امریکا میں بڑے صحافتی اداروں اور آزادیٔ صحافت کے گروپوں نے صدر ٹرمپ پر صحافیوں کو ڈرانے دھمکانے کے الزام لگائے ہیں اور ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ خیال رہے کہ زید رعد الحسین اقوامِ متحدہ کے وہ پہلے اعلی عہدیدار ہیں جنہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے صدارتی حکم نامے کے ذریعے عائد کی جانے والی نئی سفری پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے۔دنیابھرکے تمام معرروف سیاسی تجزیہ نگاروں کی متفقہ رائے ہے کہ عالمی سطح پرتباہی پھیلانے ،جس کاایندھن خودامریکابھی بنے گا،کاآغاز خودامریکی سربراہ نے کردیاہے۔آگے آگے دیکھئے ہوتاہے کیا؟امریکااوردوسرے ممالک میں ہرطبقہ فکرمیں شدیدبے چینی شروع ہوگئی ہے۔دہشت سے دہشت ہی پھوٹ سکتی ہے۔اس بناء پرانتہاء پسنداورہلاکت آفرین ردّ ِ عمل کے خطرات واضح نظرآرہے ہیں۔