سرکاری دفاتر میں کورپشن اور بدعنوانی کوئی نئی بات نہیں ہے تاہم جس انداز میں محکمہ ٹرانسپورٹ کے دفاتر کورپشن کی آماجگاہ بن چکے ہیں،وہ یقینی طور پر قابل تشویش ہے ۔ڈرائیونگ لائسنس کی اجرائی سے لیکر روٹ پرمٹ اور روڈ ٹیکس کی ادائیگی تک ایک ایسا مافیا سرگرم ہوچکا ہے جس نے اس محکمہ کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے ۔ریجنل ٹرانسپورٹ دفاتر کشمیر اور جموں سمیت تمام اضلاع میں قائم اسسٹنٹ ریجنل ٹرانسپورٹ آفسوں میں کورپشن کا بول بالا ہے اور ان دفاتر میں تعینات ہر کوئی ملازم رشوت کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کو بے تاب رہتا ہے ۔ بڑھتے سڑک حادثات پر آئے روز تشویش ظاہر کی جارہی ہے تاہم اس کی بنیادی وجوہات کی طرف کوئی دھیان نہیں دیاجارہا ہے ۔مانا کہ سڑکوں کی تنگ دامانی اور گاڑیوں کی بہتاب ایک وجہ ہوسکتی ہے تاہم سڑک حادثات کیلئے بنیادی طور ڈرائیور حضرات ذمہ دار ہیں جن کی لاپرواہی کی وجہ سے انسانی جانوں کا زیاں ہورہا ہے ۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ڈرائیور حضرات لائسنس کہاںسے لاتے ہیں۔اس کا جواب عیاں ہے کہ آرٹی او کشمیروجموں کے دفتر وںسے لیکر تمام ضلعی ٹرانسپورٹ دفاتر تک لائسنس کی تھوک و پرچون بکری لگی ہوئی ہے اور باضابطہ دلالوں کی ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعے بغیر کسی ٹیسٹ کے لائسنس اجرا کی جارہی ہیں۔ریجنل ٹرانسپورٹ دفاتر میں توعملی طوردلالوں کا راج ہے جہاںلرنرس لائسنس1000 اورمستقل لائسنس 7ہزار روپے میں ملتی ہے۔لائسنس کی حصولی کیلئے دلالوں نے نرخ مقرر کررکھے ہیں۔ آر ٹی او آفس میں زبردست عوامی دبائو لائسنس کے حصول کیلئے سرکاری طریقہ کار اپنانے والوں سمیت ہر ایک فرد کو دلالوں کا سہارا لینے پر مجبور کردیتا ہے ۔لرنرس لائسنس کی حصولی کیلئے درخواست دہندہ کو متعلقہ کاغذات جمع کرنے کے بعد ایک ٹیسٹ میں شامل ہونا ہے جس کے بعد ہی اُسے 6ماہ کیلئے لرنرس لائسنس مل سکتا ہے۔یہ عمل مکمل کرنے میں دس روز سے زیادہ لگتے ہیں مگر دلال یہ کام صرف دو دنوں میں مکمل کرکے دیتے ہیں۔لرنرس لائسنس کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی درخواست دہندہ کو مستقل لائسنس کیلئے دوبارہ کاغذات جمع کرنے پڑتے ہیں اور اس کے بعد ڈرائیونگ ٹیسٹ میں شامل ہونا ہوتا ہے اور وہاں کامیاب ہونے کے بعد ہی یہ لائسنس اجرا کی جاتی ہے۔آر ٹی او آفس میں دلالوں کی مدد سے صرف چند سو روپے آپ کو اس ساری جھنجٹ سے بچا سکتے ہیں۔دلال حضرات سارا کام خود ہی کرلیتے ہیں اور درخواست دہندہ کو کسی پریشانی کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑتا ہے اور ڈرائیونگ ٹیسٹ میں پاس ہوں یا فیل،انہیں لائسنس مل ہی جاتا ہے ۔لاکھوں کی تعداد میں لائسنس اجرا کی جاچکی ہیں اور اگر ان لائسنس یافتہ ڈرائیوروں کو پھر سے ڈرائیونگ ٹیسٹ سے گزارا جائے تو خال خال ہی کوئی کامیاب ہوجائے گا۔
یہی حالت روٹ پرمٹ اجرائی کی بھی ہے ۔اس معاملہ میں بھی پیسے خرچ کرکے آپ آسانی سے یہ پرمٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ہل ڈرائیونگ لائسنس کا حصول بھی کوئی دشوار کام نہیں ہے۔بدعنوانی سے عبارت محکمہ ٹرانسپورٹ اور اس سے منسلک ذیلی اداروں کے تعلق سے بات کرنا بھی اب معیوب سالگتا ہے کیونکہ جتنا کچھ آج تک اس محکمہ کے متعلق لکھا گیا ہے ،وہ صدا بہ صحرا ثابت ہوا اور’’اونٹ رے اونٹ ،تیری کون سی کل سیدھی ‘‘کے مصداق یہ محکمہ سدھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔اعلیٰ سطح پر بہتری کے جتنے بھی دعوے کئے جارہے ہیں،نچلی سطح پر محکمہ اتنی ہی تنزلی کی جانب گامزن ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ نچلی سطح پر یہ محکمہ ایک کاروباری منڈی کی شکل اختیار کرگیا ہے تو بیجا نہ ہوگا کیونکہ رجسٹریشن کے عمل سے لیکر لائسنس کی اجرائی تک اس محکمہ میں ہر روز بھاری پیمانے پر پیسوں کا غیر قانونی لین دین ہورہا ہے اوریہ اْسی لین دین کا نتیجہ ہے کہ آج ہر کوئی ایرا غیرا نتھو خیراڈرائیور بنا بیٹھا ہے جبکہ حقیقی معنوں میں وہ ڈرائیونگ کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتا ہے۔
محکمہ کے نچلی سطح کے ملازمین تبدیلی کے نام سے نابلد ہیں اور وہ آج بھی اُسی روایتی طریقہ کار پر عمل پیرا ہیں جو آج نہ صرف متروک ہوچکا ہے بلکہ اُسے فرسودہ قرار دیا جارہا ہے۔صوبائی اور ضلعی سطح پر ٹرانسپورٹ دفاتر کی حالت غیر ہے ،جدت سازی کاغذوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔رہی سہی کسر وہ مافیا پورا کررہا ہے جوکم و بیش ان دفاتر کا اہم حصہ بن چکا ہے جنہیں سلام کئے گئے بغیر کسی بھی دفتر میں آپ کے ساتھ کلام کرنے کی زحمت تک کوئی گوارا نہیں کرتا ہے۔ جب یہ صورتحال ہو تو آپ کیسے کسی انقلابی تبدیلی کی امید کرسکتے ہیں۔اگر محکمہ کو سدھار نا ہے تو اولین فرصت میں اوپرسے نیچے تک پوسٹ مارٹم کی ضرورت ہے ۔
سیکریٹریٹ میں قائم ٹرانسپورٹ کمشنر کے دفتر سے لیکر آرٹی اواور ضلعی دفاتر تک سب کا احتساب ناگزیر بن چکا ہے کیونکہ پیسوں کی ہریالی سے شاید ہی کوئی محروم ہوجاتا ہے۔وقت آچکا ہے جب ان دفاتر میں قائم مافیا کو الگ تھلگ کرنا چاہئے ورنہ معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے اور کوئی سدھار نہیں آئے گا۔سڑک حادثات پر کیسے قابو ممکن ہوپائے گا جب آپ بنا ٹیسٹ کے تھوک میں لائسنس بیچتے رہیں۔سڑک حادثات کو روکنے کیلئے پہلی فرصت میں لائسنسوں کی اجرائی کے منظم کاروبار پر بریک لگانے کی ضرورت ہے ۔جب لائسنسوںکی اجرائی شفاف ہوگی تو خود بخود حادثات کی شرح کم ہوگی۔حکومت کو چاہئے کہ وہ اولین فرصت میں محکمہ ٹرانسپورٹ کا نظم نسق بحال کرے اور اس کیلئے لازمی ہے کہ دلالوں اور ملازموں کے درمیان ملی بھگت کو بے نقاب کرکے اس پر قدغن لگائی جائے ۔جب یہ ملی بھگت ختم ہوگی اور پیسوں کا لین دین ختم ہوگا تو نظم و نسق خود بخود بحال ہوگا اور عوام کو اس لعنت سے نجات مل پائے گی ورنہ جس طرح اس وقت معاملات چل رہے ہیں،ایسے میں کسی اچھائی کی توقع رکھنا عبث ہے ۔