نئے سال کی پہلی صبح جب ہم نیند سے بیدا ر ہوئے تو نئے استقبال کا والہانہ استقبال کرنے کے بجائے ہمیں یہ منہوس خبر سننے کو ملی کہ ماتا ویشنو دیوی مندر میں بھگدڑ مچنے سے دوران شب12یاتری لقمہ اجل بنے ہیں جبکہ ایک درجن سے زائد یاتری زخمی بھی ہوئے ۔گوکہ ابتدائی طور پر اس المناک حادثہ کے حوالہ سے متضاد خبریں سامنے آرہی ہیں تاہم ایک بات پر سب کو اتفاق ہے کہ یہ دلخراش حادثہ میں انسانی جانوںکا اتلاف ہوچکا ہے اور اس کو ٹالا جاسکتا تھا۔حادثہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے نہ صرف وزیر داخلہ امت شاہ بلکہ وزیراعظم نریندر مودی نے بھی جموںوکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے بات کی ۔ جموںوکشمیر یوٹی انتظامیہ نے فوری طور مہلوکین کے لئے 10لاکھ اور زخمیوں کیلئے دو لاکھ امداد کا اعلان کیا ہے اور اس وقت مہلوکین کی نعشوں کو اپنے آبائی علاقوں کو روانہ کرنے اور زخمیوں کانارائنا سپر سپیشلٹی ہسپتال میں اعلیٰ معیاری طبی علاج فراہم کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔اس المناک حادثہ پر سیاسی روٹیاں سیکنا عقلمندی نہیں ہے او ر نہ ہی کسی کو اس پرسیاست کرنی چاہئے تاہم کچھ سوالات ضرور ہیں جن کا جواب ماتا ویشنودیوی شرائن بورڈ حکام کو دینا پڑے گا۔گوکہ ابتدائی طور جموںوکشمیرکے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے واقعہ کی معمولی جھگڑے کو ذمہ دار قرار دیا تاہم پہلی فرصت میں سوال پیدا ہوتاہے کہ اتنی بڑ ی تعداد میں یاتریوں کو اندر جانے کی اجازت بیک وقت کیوں دی گئی تھی ۔شرائن بورڈ حکام کوتاہیوں اور خامیوں سے انکاری ہیں تاہم عینی شاہدین کے بیانات کو بھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے ۔عینی شاہدین کے مطابق مندر میں سماجی دوریوں کا کوئی پاس ولحاظ نہیں تھا اور نہ ہی فیس ماسک کا استعمال ہورہا تھا ۔ان کے مطابق یاتریوں کے رش کو دیکھتے ہوئے صورتحال اس حد تک بے قابو ہوچکی تھی کہ ایکسرے کرنے والے پولیس عملہ نے ہاتھ کھڑے کردئے تھے تاہم وہ مسلسل یاتریوں کو متنبہ کررہے تھے کہ اس قدر بھیڑ بھاڑ سے حادثہ کا احتمال ہے ۔پھر وہی کچھ ہوا اور اڑھائی بچے رات جب بھگدڑ مچی تو وہ لوگ کچلے گئے جو یاتری بھون میں فرش پر سو رہے تھے ۔
مانا کہ شرائن بورڈ حکام بری الزمہ ہیں تاہم کیا درشن کے سلسلے میں ہمہ وقت یاتریوں کی تعداد محدود رکھنا بورڈ کی ذمہ داری نہیں ہے اورکیا یہ بورڈ کے دائر ہ کار میں نہیں آتا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ کووڈ ایس اوپیز پر مکمل عملدرآمد ہورہا ہے ۔رات کے جس پہر میں یہ حادثہ ہوا ہے ،اُس وقت یاتری بھون کھچا کھچ بھرا تھا ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ بورڈ کو یہ امید نہیں تھی کہ نئے سال کے موقعہ پر بہت بڑی تعداد میں ملک کے کونے کونے سے لوگ ماتا ویشنودیوی کی زیارت کیلئے آئیں گے۔اگر یہ امید پہلے سے ہی تھی تو اُسی حساب سے انتظامات کیوںنہیں کئے گئے تھے ۔ اگر یاتریوںکی تعداد میں اچانک کئی گنا اضافہ ہوگیاتھا تو بورڈ اُس رش سے نمٹنے کیلئے تیار کیوں نہیں تھا۔یاتریوں کی سلامتی بورڈ کی ذمہ داری ہے اور یاتریوں کو اعلیٰ معیاری سہولیات فراہم کرنا بورڈ کے فرائض منصبی میں شامل ہے لیکن جو کچھ کل رات کو ماتا کے مندر میں ہوا ،وہ افسوسناک ہی تھا۔
بہر کیف ہونی کو کوئی ٹال نہیں سکتا ہے ۔یہ حادثہ ہونا تھا اور ہوکر رہ گیا ۔اب اس کیلئے کون سے عوامل ذمہ دار تھے ،وہ اس مکمل تحقیقات کے بعد سامنے آہی جائیں گے لیکن ایک سبق جو ہمیں اس حادثہ سے ملنا چاہئے ،وہ یہ ہے کہ ہمیں ہمہ وقت اس طرح کی صورتحال کیلئے تیار رہنا چاہئے ۔گزشتہ سال کووڈ کے باوجود ایک کروڑ سے زیادہ لوگ ماتا ویشنو دیوی مندر کے درشن کیلئے آئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ اس مقدس مقام پر سال بھر عقیدت مندوںا ور یاتریوں کی بھیڑلگی رہتی ہے ۔اس بات سے بھی انکار کی قطعی گنجائش نہیں کہ بورڈ نے عقیدت مندوں کیلئے اعلیٰ انتظامات کئے ہیں اور یاتریوںکی سہولت کیلئے انتظامات میں مسلسل اضافہ ہی ہوتاجارہا ہے تاہم سال کے اہم اوقات میں اچانک بھاری بھیڑ سے نمٹنے کیلئے کیا انتظامات کئے گئے ہیں۔
ویسے بھی کورونا وائرس کی نئی نئی شکلیں ہم پر حملہ آور ہیں اور ڈیلٹا اور اومیکرون وائرس بیک وقت ہمارے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہیں۔وائرس سے نمٹنے کیلئے سرکار ٹیکہ کاری کا مشن جاری رکھے ہوئے ہے لیکن دوسری جانب مذہبی مقامات پر اس طرح کی بھیڑ بھاڑ جمع ہونے کی اجازت دینا سرکاری اقدامات کو ناکامی سے دوچار کرسکتے ہیں۔شرائن بور ڈ انتظامیہ کو سمجھنا چاہئے کہ بھلے ہی بھگدڑ کیلئے کچھ بھی عوامل ذمہ دار ہوں لیکن جتنی بڑی تعداد میں اس افسوسناک حادثہ کے وقت یاتری بھون کے اندر موجود تھے ،وہ کورونا سے نمٹنے کیلئے سرکار کی جانب سے وضع کردہ رہنما خطوط کی کھلم کھلا خاف ورزی ہے ۔عقیدت اور آستھا کے معاملات میں بے شک مداخلت کی گنجائش نہیں لیکن عقیدت اور آستھا کا معاملہ نبھاتے ہوئے یہ بات یقینی بنانی بھی ضروری ہے کہ اس عمل سے انسانی جانیں خطرے میںنہ پڑیں۔چونکہ یہ ماتا ویشنودیوی شرائن بورڈ کی تاریخ میں ایسا پہلا المناک حادثہ تھا ،اس لئے امید کی جاسکتی ہے کہ بورڈ اصلاح احوال سے کام لیکر نہ صرف اپنی غلطیوں میں سدھار لائے گا بلکہ مستقبل میں اس طرح کے حادثات کو ٹالنے کا ٹھوس بندو بست بھی کیاجائے گا اور کورونا وائرس کے ہوتے ہوئے فی الحال کووڈ رہنما خطوط پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔