میم دانش
یہ کہنا آج بھی تکلیف دیتا ہے کہ میرا دیرینہ ساتھی مجھے دکھ اور سکھ کی کہانیوں اور پہیلیوں میں اکیلا چھوڑ گیاحالانکہ وقت نے اس درد کی دھار ماند کرنے کی کوشش بھی کی ۔ وہ صرف ایک دوست یا ساتھی ہی نہیں تھا…وہ بھائی تھا ،جو مجھے دوبارہ کبھی نہیں ملا، بے خوف ساتھی، مشکل دنوں میں سہارا اور وہ شخص جس نے ایک بار صرف اس لئے میرے بدلے ماسٹر جی سے مار کھائی کہ وہ کبھی بھی میرا درد برداشت نہیں کر پاتا تھا۔
سرمدایک دلدوز اور المناک واقعے کے ہتھے چڑ گیا۔تیز و تند ہوائوں ،آندھی اور بارش کی بوچھاڑ کے بیچ آدھی رات کو ایک گیلی سڑک پر گاڑی کا حادثہ ہوا، کوئی آس پاس نہ تھا۔اس دردناک حادثے میں اس کی بیوی عالیہ اور بیٹاکبیر، جو ابھی ایک سال کا بھی نہیں ہوا تھا،زخمی ہوئے تھے۔
سینکڑوں لوگوں کی بھیڑکے درمیان میںبھی جنازے میں شریک ہوا، بس تابوت کے پاس کھڑا رہا، اس کے گھر والوں کے سامنے زیادہ رونے کی کوشش نہ کی، دور سے ہی اس کے بیٹے ، جو ماں کی گود میں سو رہا تھاسے کہا کہ تمہارا باپ سب سے بہترین انسان تھا ۔
زندگی اپنے انداز میں گزرتی گئی۔ میں دوسرے شہر چلا گیا۔ ہمارا رابطہ بھی منقطع ہو گیا۔عالیہ نے سوشل میڈیا استعمال کرنا چھوڑ دیاتھا اور آخری بار جب میں نے کبیر کے جنم پر کارڈ بھیجا وہ واپس لوٹ آیا۔ شاید وہ دونوں فاصلے چاہتے تھے، زندگی کو نئے سرے سے پٹری پر لانے کے لئے،اُن سب چیزوں سے دورجو اِنہیں ان کے نقصان کی یاد نہ دلائے۔
آج کا دن بھی ہر اتوار کی طرح شروع ہوا۔ کافی خاموشی تھی اور کھڑکی کے باہر شہر کی ہلکی سرگوشی۔ میں کروٹیں بدل بدل کر تھک چکا تھا، ابھی اُٹھنے کی جستجو کر ہی رہا تھا کہ موبائل بجنے لگا۔’’تم مجھے یوں بلانہ پائو گے‘‘…میرا رنگ ٹیون۔
’’Unknown Number‘‘۔ میں نے فون نہیں اٹھایا، گھنٹی بجتی رہی۔ کچھ لمحوں کے سناٹے کے فوراً بعد موبائل پھر سے بجنے لگا۔
ہیلو؟
گہری خاموشی۔
جیسے ہی میں فون کاٹنے والا تھا، ایک دھیمی آواز آئی…معاف کیجیے… کیا آپ صابر ہیں؟
میں ساکت ہو گیا۔جی۔ آپ کون؟
میرا نام کبیر ہے…یہ ایک بچے کی آواز تھی،نرمی ، درد اور سسکیوں سے بھری۔
آپ… میرے بابا کے دوست ہیں نا؟
تمہارے بابا؟ میں نے دہرایا،ایسا محسوس کرتے ہوئے جیسے کمرے کی ساری ہوا کھینچ لی گئی ہو۔
سرمد… میرے بابا۔ وہ… وہ مر گئے، اس سے پہلے کہ میں انہیں جان سکتا۔
میں بیٹھ گیا، دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔
ہاں۔ ہاں،کبیر۔ میں تمہارے بابا کا بہترین دوست تھا۔
ہلکے سے وقفہ کے بعد…کبیر کی آواز میں ڈر کے ساتھ ساتھ معصومیت بھی جھلک رہی تھی ۔
مجھے آپ دونوں کی ایک تصویر ملی۔ اس کے پیچھے ایک نمبر لکھا تھا۔ یہی نمبر… اور ایک جملہ…’اگر کبھی ضرورت ہو اور میں آس پاس نہ ہوں، تو اس کے پاس جانا۔ وہ میں ہی ہوں، بس کہیں اور‘۔
اچانک کمرہ بہت زیادہ خاموش لگنے لگا۔
میں نے احتیاط سے کہا… کبیر، تم کہاں سے فون کر رہے ہو؟ تمہاری امی کہاں ہے؟
اس نے توقف کیا…وہ کام پر ہے۔ میں ابھی اپنی نانی کے ساتھ ہوں۔ مجھے فون سے کھیلنے کی اجازت نہیں۔
تم نے مجھے کیوں فون کیا؟
مجھے ایک سائیکل چاہیے۔ اس نے کہا…سب کے پاس ہے۔ لیکن نانی کہتی ہیں ابھی پیسے نہیں ہیں۔ میں نے سوچا… پتا نہیں۔ شاید اگر یہ آدمی بابا جیسا ہے، تو مدد کرے گا۔
میری آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن میں مسکرایا۔
بڑے معصومانہ انداز میں اس نے کہا کہ میں بدتمیزی نہیں کرنا چاہتا…مجھے پتا ہے آپ مجھے نہیں جانتے۔
نہیں بیٹا… میں نے دھیمے لہجے میں کہا۔ میں تمہارے بابا کو جانتا ہوںاور اگر اس نے لکھاہے کہ میں اُن جیسا ہوں، بس کہیں اور… اس کا یہ مطلب ہے کہ ہم کسی نہ کسی رشتے سے بندھے ہوئے ہیں…
اس ایک فون کال سے سارا منظر ہی بدل گیا۔
میں نے اس سے پتہ لیا۔ کہا فی الحال نانی کو کچھ نہ بتانا تاکہ سرپرائز رہے۔ فون بند کیا، غم اور خوشی کے عجیب امتزاج کے ساتھ ہاتھ اب بھی کانپ رہے تھے، دل دھڑک رہا تھا…
اگلے دن میں اس چھوٹے سے شہر کی طرف روانہ ہوا جہاںسرمد رہا کرتا تھا۔ تین گھنٹے کی ڈرائیو، جو ان یادوں کے ساتھ اور بھی لمبی محسوس ہوئی جو مسلسل ذہن میں گونج رہی تھیں۔ جب آخری بار میں اس راستے پر چلا تھا، تو جنازے کی گاڑی کے پیچھے تھا۔ اس بار، ایک چھوٹے لڑکے کی آواز میں ایک روح کے سراغ کے پیچھے تھا۔
راستے میں ،میں نے ایک سائیکل خریدی… بالکل ویسی ہی جیسی میں اور سرمد اسکول میں استعمال کرتے تھے۔ تب ہم ہر جگہ سائیکل سے ہی جایاکرتے تھے، چاہے ضرورت نہ بھی ہو، صرف آزادی کے احساس کے لئے۔ میرے دل میں آیا شایدسرمد نے بھی وہ جملہ لکھتے وقت یہی سوچا ہو۔
اس کی ماں کا گھر زیادہ نہیں بدلا تھا۔ برآمدے کی کچھ پینٹ اکھڑ گئی تھی۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا، ایک بزرگ خاتون نے دروازہ کھولا…تھکی ہوئی، لیکن مہربان۔ پہلے اس کی آنکھیں سکڑ گئیں، مگر جب میں نے کہا…میں صابر ہوں۔سرمد کا دوست، تو اس کا چہرہ کھل گیا۔
صابر… میں تمہیں جانتی ہوں۔سرمداکثر تمہارا ذکر کرتا تھا۔ اندر آؤ۔
کبیر کھڑکی سے جھانک رہا تھا۔ اس کے بال باپ سے زیادہ گہرے تھے، مگر آنکھیں وہی زندہ سبز تھیں۔
اسلام علیکم، اس نے شرمیلے پن سے کہا۔
وعلیکم اسلام کبیر، میں نے جواب دیا۔ میرے پاس تمہارے لئے کچھ ہے۔
میں اسے باہر لے گیا اور سائیکل کی پیکنگ کھول دی۔ اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں، سانس رک سی گئی، جیسے عید کی صبح ہو۔
یہ میرے لئے ہے؟
میں نے سر ہلایا۔تمہارے باباکی طرف سے۔
ہاتھ منہ پر رکھے ہوئے اس کی نانی خاموشی سے دیکھ رہی تھیں۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں، حالانکہ وہ کچھ کہنے سے قاصر تھیں۔
کبیر شام تک صحن میں سائیکل چلاتا رہا، اس کی ہنسی درختوں کے درمیان گونجتی رہی۔ نانی نے مجھے اندر بلایا، اصرار کیا کہ رک جاؤں۔ کھانے کے دوران، ہم نے سرمد کی باتیں کیں…وہ کیسا انسان تھا، ہماری بیوقوفیاں اور وہ چند عقلمندیاں۔کبیر سنتا رہا، جیسے کوئی داستان ہو۔
کھانے کے بعد، جب نانی برتن دھو رہی تھیںتو کبیر نے مجھے تصویر دکھائی۔ پرانی تھی، مدہم، لیکن صاف…میں اورسرمد، ایک دوسرے کے بازو میں، بیس میل سائیکل چلانے کے بعد کی احمقانہ مسکراہٹیں۔ پیچھے سرمد کے ہاتھ سے لکھا تھا…
’’اگر ایک دن میں نہ ہوں اور تمہیں کچھ چاہیے ہو، تو اس کے پاس جانا۔ وہ میں ہی ہے، بس کہیں اور‘‘
میرے گلے میں کچھ پھنس گیا۔
کبیر نے کہا…یہ مجھے ایک پرانے ڈبے میں ملی۔ مجھے نہیں پتا کیوں اسے کھولا۔
میں نے کہا…شاید… تمہارے بابا جانتے تھے کہ تم ایک دن اسے ضرور کھولو گے۔
اس رات میں گھر واپس نہیں گیا۔ یہیں صوفے پر ہی سوگیا، صبح کارٹونز اور اناج کے پیالے میں چمچ کی آواز سے جاگا۔ برسوں بعد پہلی بار اتنی سکون بھری نیند آئی تھی۔
دن ہفتے بنے۔ میں بار بار واپس جانے لگا۔نہ صرف کبیر کے لئے…شاید خود کے لئے بھی۔
ہم سائیکل چلاتے، کرکٹ کھیلتے، ہوم ورک کرتے۔ میں نے اسے پتھر پانی پر اُچھالنا سکھایا، اس نے مجھے کارٹونز اور مونسٹرز کی ڈیجیٹل دنیا دکھائی۔ کبھی کبھار ہم صرف برآمدے پر بیٹھ کر باتیں کرتے۔
ایک دن کبیر نے مجھ سے پوچھا اس کے بابا کیسے تھے اور میں نے سب کچھ بتادیا…جب ہم نے ہمسائے کا شیشہ توڑا اور بھاگ گئے، مگر پانچ منٹ بعد واپس آئےتو معافی مانگی اور ایک مہینہ ان کے لئے گھاس کاٹتے رہے۔ جب سرمد نے استاد سے جھوٹ بولا تاکہ میں سزا سے بچ جاؤں… وہ اندھیرے میں روتا رہا اور میں صرف اس کے پاس بیٹھا رہا۔
ایک بار اس نے پوچھا…کیا میرے باباکسی چیز سے ڈرتے تھے؟
میں نے مسکرا کر کہا… ہاں۔ اسے چوہوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔
کبیر اتنا ہنسا کہ تقریباً کرسی سے گر گیا۔
چند مہینے بعد،عالیہ واپس آ گئی۔
وہ بیرونِ ملک کام کرتی تھی، پیسے بھیجتی تھی اورکبیر اپنی نانی کے ساتھ رہتا تھا۔ جب میں نے اسے دیکھا، وہ بڑی مشکور لگ رہی تھی…اس کی آنکھیں تھکی ہوئی ،آواز میں شرمندگی تھی۔
اس نے کہا… تم نے کبیرکو وہ دیا جو میں نہ دے سکی۔
نہیں نہیں… میں نے اسے وہ دیا جوسرمد دیتا۔ میں بس وہی آدمی ہوں، بس کہیں اور۔
وہ مسکرائی اور ایک لمحے کو میں نے اس عورت کو دیکھا جس سے سرمد محبت کرتا تھا…
سال گزرتے گئے۔کبیر بڑا ہو گیا۔ سائیکل چھوٹی پڑ گئی، ہم نے نئی لا کر دی۔ اسے ڈرائیونگ سکھائی۔ ہر دن یومِ والد پر ہم سرمد کی قبر پر جاتے، پھول رکھتے اور یادیں سناتے۔
کبیر نے کبھی مجھے…’’ابو ‘‘نہیں کہا…اور میں نے بھی یہ کبھی نہیں چاہا۔ لیکن ایک دن، جب وہ کالج جانے والا تھا، اس نے مجھے ایک چیز دی۔
وہی تصویر تھی… پیچھے سرمد کی تحریر کے ساتھ، اس نے قلم سے لکھا تھا…
’’اب سمجھ آیا کہ اس کا مطلب کیا تھا…تم واقعی وہی ہو… بس کہیں اور‘‘۔
زندگی چلتی رہتی ہے۔ ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ مگر کچھ گونجیں انسان کے ساتھ رہ جاتی ہیں…خاموش یادیں جو بتاتی ہیں کہ محبت مرتی نہیں، بس اپنا کمرہ بدل لیتی ہے۔
���
اِی میل[email protected]