ملک نیلوفر احد،دہرمنہ بڈگام
کئی بار سوچتی تھی کہ لوگ مرنے والے پر آخر اتنا کیوں روتے ہیں۔ کسی کے چلے جانے پر عمر بھر کا روگ اپنی جان کو کیوں لگا لیتے ہیں۔ اشکوں کی برستی ہوئی برسات مرنے والے پر کیوں کی جاتی ہے؟ لیکن میں یہ نہیں سمجھ پائی تھی کہ جانے والا جاتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اپنا جسم اور روح لیکر رخصت ہوتا ہے بلکہ وہ اپنے ساتھ محبت، قربت، اپنائیت، شفقت اور وابستگی کے سینکڑوں جذبے بھی لے جاتا ہے اسی لئے شاید لوگ روتے ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ موسموں کی آندھیاں چلتی ہیں تو کئی چراغ گل ہو جاتے ہیں لیکن ان کے گل ہو جانے پر بھی ان کی یادوں کے چراغ روشن رہتے ہیں۔ جانے والی ہستی اس جہاں سے چلی جاتی ہے لیکن اپنے پیچھے محبتوں اور اپنائتوں کا وہ بیش قیمت سرمایہ چھوڑ جاتی ہے کہ اگر انسان انہیں فراموش کرنا بھی چاہے تو نہیں کر سکتا۔
انسان کس قدر بے بس اور مجبور ہے مجھے معلوم نہ تھا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ انسان اپنی آرزؤں اور امیدوں کو کھو کر جب بے آسرا ہو جاتا ہے اور ان چہروں کی تلاش کرتے کرتے تھک جاتا ہے جو محاصل زندگی ہوتے ہیں تو اسے زندگی کا کتنا بڑا المیہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔میرے شوہرملک عاشق حسین واقعی وہ عظیم شخصیت تھے جن کا کردار آج کے اس نفسانفسی کے دور میں ایک روشن مثال تھا ۔ان کا باطن انکے ظاہر سے کہیں زیادہ پاکیزہ تھا۔وہ ایک ہمدرد اور پیار کرنے والا ہمسفر تھا۔ اس معاشرے میں رہتے ہوئے اور انسانوں کی اس بستی میں بستے ہوئے ان کا کردار ایک روشن دلیل تھی۔ انہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں محنت و مشقت سے کام کیا اور رب العزت نے انہیں انکی محنت کا صلہ بھی دیا۔ وہ کوئی جاگیردار یا سرمایہ دار نہ تھے لیکن قدرت نے جو کچھ انہیں عطا کیا تھا اس پر ہمیشہ شکر بجالاتے تھے ۔ان کی زندگی کے کتنے ہی ایسے پہلو ہیں کہ جن کا ذکر کیا جائے تو تشنگی پھر بھی باقی رہ جاتی ہے۔ وقت گزررہا ہے اور گزرتا رہے گا لیکن ان کی یادیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کا طرز تکلم ہمیشہ ان کی یاد کو تازہ کرتے رہیں گے۔
موت ہماری زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ہزاروں سالوں سے لوگ دنیا میں پیدا ہو رہے ہیں اور اپنی زندگی کی طے شدہ عمر کوپورا کرنے کے بعد واپس چلے جاتے ہیں۔ کوئی پچاس سال تک جیتا ہے تو کوئی سو سال سے بھی زیادہ زندہ رہتا ہے۔ بالآخر سب کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے اور اپنے ربّ کے حضور حاضر ہو کر اْن آزمائشوں کیلئے جوابدہ ہونا ہوگا، جن سے وہ زندگی میں گزرتے رہے ہیں۔میرے شوہر مرحوم پیار اور محبت کی مجسم تصویر ہمیں تنہا چھوڑ کر موت کے سنسنان ویرانے میں جا بسے ہیں۔وہ ہم سے روٹھ کر بہت دور چلے گئے۔ دور، اتنی دور کہ جہاں تک میری آواز اور پکار بھی پیچھا نہیں کر پاتی۔ ایسی منزل کہ جہاں جانے والا راہی کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔اپنے شوہر مرحوم کے ساتھ گزارے خوشی کے 17سال اب بہت مختصر لگتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ بہت خوبصورت اور مبارک تھے۔ اب عاشق صاحب کو اس فانی دنیا سے رخصت ہوئے 15دن ہوچکے ہیں اور یہ عرصہ بہت لمبا، بے معنی اور درد ناک محسوس ہو رہا ہے۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی میں زندہ ہوں، جو کچھ بھی میرے پاس تھا اس کا شکر ادا کرنے کیلئے اوراب اس دن کا انتظار ہے جب ہم دوبارہ ملیں گے(انشاء اللہ)۔
میرے روز و شب کے نصاب میں ، میرے پاس تو اپنا کچھ نہیں
تیرا قرض ہے میری زندگی، میری سانسیں تیری امانتیں
میں دکھ کی اس گھڑی میںاْن تمام معزز حضرات ،دوست واحباب، عزیزو اقارب اورسماج کے مختلف طبقوں سے وابستہ افرادکا صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوںنے میرے شوہرمحترم عاشق حسین ملک ساکن دہرمنہ بڈگام کے انتقال پر ہمارے گھر تشریف لاکر، بذریعہ ٹیلی فون یا سوشل میڈیا پرہمارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ عاشق صاحب 20اکتوبر 2023 بروز جمعۃ المبارک صورہ میڈیکل انسٹچوٹ میں انتقال کر گئے۔ واقعی غم کی اس گھڑی میں ہمدردی کے الفاظ نے ہماری ڈھارس بندھائی جس کیلئے ہم اپنے خیر خواہوں کے ممنون ہیں۔میں اپنے ہمسائیوں اور باشندگان دہرمنہ وملحقہ دیہات کے لوگوں کی شکر گزار ہوںجنہوں نے اپنی بے لوث ہمدردی سے ہماری ڈھارس بندھائی اور ہمیں یہ احساس دلایا کہ وہ بھی ہمارے غم میں برابر کے شریک ہیں۔میں شاہین اسلامیہ سکول دہرمنہ کے چیئرمین ،پرنسپل اور دیگر عملے کی خصوصی طور شکرگزارہوں جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں میرا بھرپور ساتھ دیا۔
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے)