سارہ اور ارسلان شادی کے بعد ہی عمان (Oman)جانے کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے ۔ دونوں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ شادی کے ساتھ ہی ارسلان کو ایک فرم میں آرکیٹیکچرل انجینئر کی نوکری مل گئی تھی۔ اگلے کچھ دنوں میں نئی جگہ پر کام سنبھالنا تھا ۔
ارسلان کی پوسٹنگ عمان کے دارالحکومت مسقط سے ڈیڑھ دو سو کلو میٹرکی دوری پر بھلا Bhala نام کے قصبے میں ہوئی تھی ۔
پہنچتے ہی اس نے جوائن کیا اور آفس کے آس پاس ہی گھر لےلیا۔ ارسلان نے کام شروع کیا ۔ اسے پرانے قلعے کو سنبھالنے کا کام سونپ دیا گیا تھا۔ کئی سو سال پرانا قلعہ اب تاریخی یاد گار بن چکا تھا۔وہاں کی حکومت قلعے کو اپنی تاریخی شکل میں خوبصورت بنانے کی خواہاں تھی۔
جگہ کا معائینہ کرنے کے لئے خلیل نامی ایک مقامی شخص کو ارسلان کے ساتھ بھیج دیا گیا۔ خلیل کاقد کچھ زیادہ لمبا تھا۔ موٹے ہونٹ، سیاہ رنگ پردانت سفید ، گول دھنسی ہوئی مگر سبز آنکھیں اورخاموش شخصیت کا مالک تھا۔
جايزہ لینے کے دوران ارسلان کو یہ جگہ کچھ عجیب سی لگی ۔ ہر طرف ہلکی آہٹ سی محسوس ہوتی تھی جیسے خزاں میں زمین پر چنار کے گرے ہوئے پتے ہوا کا جھونکا لگنے پرسائيں سائیں کی آواز کرتے ہوں، جبکہ اس ریگستانی قلعے میں پیڑ نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ چلتے چلتے یوں احساس ہوتا تھا کہ کوئی چھو کر گزر ا لیکن دکھتا تو کوئی نہ تھا ۔کہیں پر مٹی اچانک گرجاتی تھی۔ یہ سب کچھ عجیب سا لگتا تھا ۔ قلعے کے تاریک گوشوں سے جب گزرتے تھے تو اندھیرے میں صرف خلیل کی دو چمکتی آنکھیں نظر آتی تھیں۔ خلیل کے مطابق قلعہ کچھ ۷۰۰ سال پرانا تھا اور اسکو ایک جن نے صرف ایک رات میں بنایا تھا۔ یہ سن کر ارسلان بے ساختہ ہنس پڑا مگر خلیل بڑے سنجیدہ لہجے میں بات کرتا تھا۔ ارسلان نے خلیل کو سمجھایا آجکل کے سائنسی دور میں ایسی باتیں نہیں کرنی چاہیں۔ قلعے کے آس پاس رہنے والے باشندے قلعے کے بارے میں مختلف باتیں کرتے تھے،جیسے کہ یہ جنات کا شہر رہ چکا ہے وغیرہ۔
سارہ گھریلو امور سے فارغ ہوکر ارسلان کا انتظار کر رہی تھی ۔آج زیادہ خوش تھی کیونکہ ماں بننے کہ خوشی سے زیادہ ارسلان کو یہ خوشخبری دینے کے لئے بیقرار تھی اور اسکے آتے ہی وہ بیتابی سے کہہ اٹھی کہ ہم امی ابو بننے والے ہیں۔ ارسلان کو یوں لگا جیسے کسی نے ساری خوشیاں ایک ساتھ اسکی جھولی میں ڈال دی ہوں۔ دونوں خوش و خرم تھے اور کیوں نہ ہوں زندگی کے اس لمحے کا انتظار ہر شادی شدہ جوڑے کو ہوتا ہے۔ ارسلان نے سارہ کو آرام کرنے کی تلقین کی اور خود اسکی ہر چھوٹی بڑی بات، جیسے ڈاکٹر کےپاس جانا ،وقت پر دوائي اور انجکشن لینا، اچھا کھانا وغیرہ، غرض ہر چیزکا خیال رکھنے لگا۔ کچھ مہینوں بعد سارہ نے شہر کے ہسپتال میں ایک پیاری سی بچی کو جنم دیا۔ گھر لوٹنے پر ارسلان نے بیوی اور بچی کا استقبال بڑے پیار سے اپنے منفرد انداز میں پھولوں کی برسات کر کے کیا۔چند روز بعد اپنے دفتر کے ساتھیوں اور دوستوں کو کھانے پر بلایا۔ بیٹی کا نام زہرہ رکھا گیا ۔ دونوں کی دنیا بیٹی کے آنے سے مزید خوبصورت ہوگئی۔ اب ارسلان فیملی کو لے کے شاپنگ وغیرہ کے لئے اکثر شہر جایا کرتا اور رات کا کھانا کھا کے ہی لوٹتے تھے۔ کام سے لوٹنے پر ارسلان زہرہ کے ساتھ دیر تک کھیلتا جو اب تین سال کی ہو چکی تھی ۔
ایک دن ارسلان ڈیوٹی سے دیر سے لوٹا تو دیکھا کہ بیٹی رو رہی تھی۔ سارہ غصے میں تھی، پوچھا، تو اس سے پہلے سارہ کچھ کہتی، زہرہ معصوم سی آواز میں بولی ’’میرے پیٹ میں درد ہے‘‘۔ سارہ بولی دوائی کی شیشی آج ہی ختم ہوگئی ہے ۔ارسلان نے بچی کو گود میں اٹھایا حالانکہ وہ تھک چکا تھا لیکن اسے بچی کا رونا برداشت نہ ہوا اور بازار سے دوائی لانے کیلئے تیار ہو گیا۔ بہت دیر ہوچکی تھی اسلئے سارہ نے نہ جانے کی تلقین کی ، پر لاکھ منع کرنے کے باوجود وہ نہیں مانا اور چلا گیا۔سارہ بچی کو لےکر ارسلان کے لوٹنے کا انتظار کرتی رہی۔ دیر تک انتظار کرنے بعد اسکی بے چینی بڑھنے لگی۔ گھڑی کی ہر گھنٹے کے بعد ٹن….، ٹن…. ٹن کی آواز سے سارہ کی روح کانپ اٹھتی تھی۔ بچی بھی دروازے کو تکتے ہوئے سو گئی ۔ آنکھوں میں رات گزر گئی پر ارسلان نہیں لوٹا۔ صبح ہوتے ہی آفس ،بازار غرض ہر جگہ یہاں تک کہ علاقے کے ہر فرد سے ارسلان کے بارے میں پوچھا لیکن کہیں سے کوئی سراغ نہ ملا ۔ کمپنی والوں نے بھی اسکو ڈھونڈنے میں کوئی کثر نہیں چھوڈی۔ اس المناک واقعہ نے سارہ کے دماغ کو متاثر کردیا ۔
وہ کہتے ہیں ناکہ وقت ہر زخم کا مرہم ہے۔ سارہ بچی کو دیکھ کر رفتہ رفتہ سنبھل گئی۔ کچھ ہفتوں بعدشوہر کے دوست نے اسے مقامی سکول میں استانی کی نشست پہ تعینات کروایا تاکہ وہ اس دکھ سے باہر آسکے۔ وہیں پر زہرہ کا بھی داخلہ کروایا۔ دن،مہینے اور سال گزر گئے ۔ زہرہ ماشااللہ بڑی ہو گئی اور وہ کافی ذہین بھی تھی ۔ اسکی شادی بھی قلعے میں کام کرنے والے ایک جونیئر آرکیٹکٹ سے طے ہوگئی، جس کا نام طارق تھا۔ وہ خوش تھی مگر ماں کے لئے پریشان ہو گئی کیونکہ ماں کا اکیلے رہنا اسے گوارا نہیں تھا۔ ماں اکیلے رہنے پہ بہ ضد تھی۔آخر زہرہ نے سارہ کی ایک دوست کی مدد سے ماں کو دوسری شادی کے لئے مشکل سے آمادہ کیا اور ایک پاکستانی شہری اجمل کے ساتھ اسکی شادی کر دی۔اجمل کئی سال سے مسقط میں کام کر رہا تھا ۔ اسکی پہلی بیوی فوت ہو چکی تھی اب وہ سارہ کو لے کے وطن واپس چلاگیا ۔ زہرہ کی بھی شادی ہو گئی اوروہ شوہر طارق کےساتھ اسی مکان میں رہنے لگی جو کبھی اُسکے ماں بابا کا گھر تھا۔ انکے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی جسکا نام رحمت رکھا گیا۔ وقت اپنی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔ رحمت بھی چار سال کی ہونے لگی۔ زہرہ اسکو اپنی ماں کے قصے سنا تی رہتی تھی۔والد کے بارے میں جتنا ماں سے سنا تھا سب بتاتی تھی۔حالانکہ خوداسکو اپنے بابا کے بارے میں کچھ یاد نہیں تھا ۔
رحمت ایک رات بیمار ہو گئی درد کی شدت سے رو رہی تھی ۔ طارق نے بیوی سے کہا کہ وہ بچی کے لئے کچھ دوائی لے کے آئےگا ۔ لیکن زہرہ نےاسے باہر جانے سے صاف صاف منع کیا۔ دونوں میں کافی بحث ہوئی لیکن زہرہ دیوانی جیسی ہوگئی۔ اسکو اپنی ماں کی اُجڑی زندگی کا حال آنکھوں کے سامنے گھومتا دکھائی دے رہا تھا ۔ طارق اسے سمجھا ہی رہا تھا کہ اچانک دروازے پر کسی نے دستک دی۔ رحمت اور زہرہ خوفزدہ ہو گئے آخر اتنی رات گئے کون ہوسکتا ہے ؟ طارق دونوں کو سنبھال رہا تھا مگر اندر سے خود بھی پریشانی کے عالم میں مبتلا تھا، پر رحمت اور زہرہ کے لئے مضبوط بن کر آہستہ سے دروازے کی طرف بڑھا دروازہ کھولا تو دیکھا۔۔۔ایک متوسط عمر کا آدمی ، جسکا منہ میلا ،بےترتیب لمبی داڑی ، آنکھوں میں غضب کی وحشت اور ہاتھ میں دوائی کی شیشی لے کے کانپتے ہونٹ ہلاتے ہوئے کہنے لگا لو بچی کو پلا دو ۔ذرا سی دیر ہوگئی۔ مجھے کئی آدمی دور کسی انجانے بازار میں چھوڑ گئے وہیں سے دوائی لائی۔۔۔۔۔۔۔! موت کی سی خاموشی میں کوئی کچھ نہ بول سکا کیونکہ کوئی اس اجنبی کو پہچان نہیں رہا تھا کہ اچانک رحمت نے زور سے پکارا، نانوں……..! نانوں۔۔۔۔۔۔۔!
وزیر باغ، سرینگر، کشمیر