مرزا بشیر احمد شاکرؔ
میں ۲۱؍اپریل ۲۰۲۵ء کا سرینگر سے شائع ہونے والاروزنامہ اخبار پڑھ رہا تھا۔ دورانِ مطالعہ اس اخبار کے اندرونی صفحات میں ایک سرخی یوں نظر آگئی ’’کشمیر میں کتب بینی دم توڑ گئی‘‘ یہ دیکھتے ہی اس سرخی کے تحت میں نے پوری عبارت کا مطالعہ کیا۔ یہ خبر پڑھتے ہی گویا میرے دل پہ ایک چوٹ سی لگ گئی اور میں بے حد رنجیدہ ہوگیا۔ دراصل اس کتابی دکان ’’بیسٹ سیلر‘‘ کے ساتھ سالہا سے میری بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ اپنے گھر سے لال چوک پہنچ کر میں اکثر اس دکان پر حاضر ہوجاتا تھا۔ رفتہ رفتہ دکان کے مالک جناب ثناء اللہ صاحب کے ساتھ بھی بہت حد تک شناسائی ہوگئی۔ کتابوں کی خریداری کے ساتھ ساتھ میں مالک دکان کے ساتھ علمی اور ادبی باتوں کا تذکرہ بھی کرتا رہتا تھا اور مالک دکان بڑی دلچسپی اور توجہ کے ساتھ ہمہ تن گوش ہوجاتے تھے۔ مجھے آج سالہا گزرنے کے باوجود یاد آرہا ہے کہ جونہی کسی نئی آمدہ کتاب پر میری نظر ٹھہر جاتی تھی، تو میں ہاتھ میں لیکر ورق گردانی کرکے فی الفور اس کو خریدتا تھا۔ یہ دکان معلومات کے مطابق ۱۹۸۰ء میں قائم کیا گیا تھا، دھیرے دھیرے دکان کی رونق بڑھتی گئی۔ یہاں پر قرآنِ کریم کے با برکت نسخے ہوتے تھے۔ قرآن کی تفسیروں پر مشتمل مختلف کتابیں ہوتی تھی۔ سیرتِ مبارکہ، احادیث شریف کے علاوہ فقہی کتابیں بھی اس دکان پر موجود ہوتی تھیں۔ مزید برآں ملک اور ملک سے باہر کے ادیبوں، قلمکاروں اور شاعروں کی تصنیفات و تالیفات بھی اس علمی گنجینہ میں دستیاب ہوتی تھیں۔ راقم السطور نے درجنوں کیا بلکہ سینکڑوں کتابیں دیگر دکانوں کے علاوہ اس دکان سے بھی خریدی ہیں، جن میں کچھ قابل ذکر کتابوں کے نام مجھے آج بھی یاد ہیں۔ مثلاً ،۱۔پاکستان سے مشہور و معروف کتابیں چھاپنے والی کمپنی بہ نام تاج کمپنی لاہور کا نو مسلم ڈاکٹر Muhammad Marmad Pickthall کا انگریزی ترجمہ والا بہت بڑے سائز کا قرآنِ شریف جو کہ عمدہ کاغذ، رنگین، اعلیٰ چھپائی ، کمپیوٹرائزڈ کتابت والا اور زیب و زینت والا جلد بند ہے (سننے کے مطابق طباعت کتب کی یہ پرانی کمپنی بھی بند ہوگئی ہے)،۲۔ خوبصورت خطاطی والی بڑے سائز کی کتاب بھی مالک دکان ثناء اللہ نے میرے ذوقِ کتب کو نظر میں رکھتے ہوئے بطورِ خاص میرے لئے دکان میں رکھی تھی،۳۔ برصغیر کے معروف عالم دین اور محدث لکھنؤ کے مرحوم مولانا محمد منظور نعمانیؒ کی تالیف سات جلدوں پر مشتمل برنگِ سبز جلد بند معارف الحدیث بھی میں نے یہیں سے حاصل کی تھی اور اس کی آٹھویں جلد راقم نے کتب خانۂ الفرقان سے منگائی تھی،۴۔علامہ حضرت کرم شاہ الاز ہریؒ کی سات جلدوں پر مشتمل تفسیر قرآن بعنوان ضیاء القرآن کے علاوہ مفسر قرآن و حدیث علامہ شبیر احمد عثمانی کی قرآنی تفسیر ’’تفسیر عثمانی‘‘، دو جلدیں مجلد بھی حاصل کی تھیں۔ درج بالا قرآن اور احادیث مبارکہ پر مشتمل کتابوں کے علاوہ مولانا اشرف علی تھانویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور دیگر علمائے کرام کے تفسیر اقبالیات سے متعلق کتابیں، شعرو شاعری کی کتابیں اور دیگر درجنوں کتابیں راقم الحروف نے اسی دکان سے خریدی تھیں۔ ؎ عمر گذری ہے اسی دشت کی صحرائی میں
غرض گزشتہ زمانے کی ان ناقابل فراموش یادوں میں کھوکر اب سکڑنے والے کتابی کلچر اور نسلِ نو میں ناپید ہونے والے مطالعہ کتب کا فقدان دیکھ کر اس طرح علم و ادب کے گنج ہائے گران مایہ کا بند ہونا زندہ قوموں کیلئے ایک المیہ سے کچھ کم نہیں ہے۔ اس پر جتنا بھی غم و غصہ کا اظہار اور واویلا کیا جائے کتاب دوست حضرات کیلئے وہ جوازیت رکھتا ہے۔ کتب فروشوں کی دکانوں کا بند ہونا یا لائبریریوں کا کسمپرسی کی حالت میں رہنا اور بے رونق ہونا حصولِ علم سے محروم ہونے کی دلیل ہے۔ صحیفۂ آسمانی یعنی قرآنِ کریم کی ابتدائی وحی کی آیت کریمہ ’اِقراء باسمہ ربک الذی خلق‘ ہے، جس میں علم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ سائنسی ایجادات موجودہ دور میں اپنے عروج پر ہیں، اور پتہ نہیں آئندہ زمانے میں کون کون سے نئے حیران کن سائنسی انقلابات آئیں گے اور بنی نوع انسان کو کیا کچھ دیکھنے کو ملے گا۔ بقولِ علامہ اقبالؒ ؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
دورِ حاضر میں لوگ بالخصوص نئی نسل کتابی مطالعہ سے دور ہوتی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وجہ سے طلباء طالبات اور علم و ادب کے شائقین ورقی کتاب کے بجائے برقی کتاب کو ہی دیکھتے ہیں اور اسی سے اکتساب فیض کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے محنت اور لگن کے بجائے حصول علم کیلئے اپنی کوتاہ اندیشی سے اپنا ایک short cut راستہ اختیار کیا ہے۔ اس بارے میں ناچیز راقم الحروف کچھ بالغ نظر اور دور اندیش علمائے کرام اور دانشور حضرات کے فرمودات پیش کرکے کتابی علم کی افادیت اور اہمیت کو واضح کرنا چاہتا ہے۔(۱)یقین جانئے کہ آج اس ایک موبائل کی وجہ سے فاتح قوم مفتوح، غالب قوم مغلوب، اور بہادر قوم مرعوب ہوکر وامِ ہمرنگ زمین ہوچکی ہے۔ وکی پیڈیا کی غیر معتبر تحریرات کو حوالہ گوگل کی باتوں کو لائق اعتماد، یوٹیوب کی چیزوں کو سند کا درجہ دیکر اپنی کتابوں اپنے بزرگوں اپنے کتب خانوں اپنی درس گاہوں سے دور گرفتار و شکار ہوتی جارہی ہے۔( مولانا محمد سعیدی)۔(۲)یہ حقیقت شبہ سے بالا تر ہے کہ قلم و کتاب سے وابستگی سعادت مندوں کا وظیفہ حیات رہا ہے۔ بادی النظر میں راست مطالعہ کتب ہی اہل علم کی سب سے طاقتور غذا ہے، جس سے روح کو تازگی، فکر کو پاکیزگی اور خیالات کو بلندی نصیب ہوتی ہے۔ (مولانا مفتی خالد سیف اللہ گنگوہی)۔(۳) اصل کتابوں کو نظر انداز کرکے صرف ڈیجیٹل ذخائر پر انحصار کرنا نقصان دہ ہے خصوصاً طلبہ کو سہولیت پسندی سے بچنا چاہیے اور کتابوں سے اپنا تعلق مضبوط سے مضبوط تر کرنا چاہئے۔ اس کے بغیر علمی گہرائی اور نظر میں وسعت پیدا نہیں ہوسکتی۔ (مفتی محمد سلمان منصور پوری)۔(۴) پی ڈی ایف کلچر میری نظر میں ذوق مطالعہ کیلئے زہرِہلال ہے۔ جب سے اس کلچر نے فروغ پایا ہے کتب بینی کا روح سرد پڑگیا ہے۔ پڑھنا لکھنا گویا کفن دفن کے مرحلے سے بھی گزر گیا۔ (میرا عشق میری کتاب)۔(۵) اب جبکہ مطالعہ سے وابستگی زوال پذیر ہے۔ شمع تحقیق کی لو مدہم ہوتی جارہی ہے اور وسائل اعلام و نشر کی ریل پیل نے کھرے اور کھوٹے کے امتیاز پر شب خون مارا ہے تو صحت مند مواد کی فراہمی اور نفع بخش لٹریچر کی نشاندہی ہماری مطالعاتی ذمے داریوں کو ایک نئے احساس و جذبہ سے آشنا کرتی ہے۔ برقی مواصلات سے مربوط آج کی نئی نسل کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ صدی علم و تحقیق کے چراغ روشن کرنے والوں کی صدی ہے۔ تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے معلم انسانیتؐ نے اقراء کی صورت میں جو نسخہ اُمت کیلئے تحریر فرمایا تھا مطالعہ کتب اُسی کی یاد دہانی ہے۔ (مفتی محمد ساجد مدیر ماہنامہ صدائے حق)
یہ بھی رنج و غم کی بات ہے کہ لالچوک میں بند ہوئے بیسٹ سیلر کتابی دکان کے باہر دائیں بائیں پٹری پر کتابوں، رسالوں اور اخبارات کا کام کرنے والے گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنا کاروبار چلارہے تھے۔ مقامی اخباروں کے علاوہ ملک کی دیگر ریاستوںسے شائع ہونے والے اخبارات و رسائل اُن کے پاس موجود ہوتے تھے۔ بہت سارے لوگ ایسے اخبارات و جرائد کی دلچسپی کے ساتھ خریداری کرتے تھے۔ مگر اب ان لوگوں نے بھی اپنے کاروبار کو بند کیا ہے اور کچھ دیگر چیزیں بیچنے لگے ہیں اور علمی نوادرات کی باتیں قصۂ پارینہ بن گئی ہیں ؎
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دکان اپنی بڑھا گئے
ایسے زمانہ اور ایسے علمی اور ادبی سوغات کی خرید و فروخت کو یاد کرکے دل غم و اندوہ کے دریا میں ڈوبنے لگتا ہے۔ ایسے دکانوں سے بازاروں کی گہما گہمی اور رونق بڑھ جاتی تھی۔ اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں چلتے پھرتے اخبارات و رسائل ہوتے تھے۔ گاڑیوں میں سفر کرنے والے ان چیزوں کا مطالعہ کرتے نظر آتے تھے۔ دوسرے لوگ چند لمحوں کیلئے یہ اخبارات وغیرہ عاریتاً لیتے تھے اور انکے مطالعہ سے محظوظ ہوجاتے تھے۔ اس پیشے سے وابستہ ہاکر لوگ آوازیں دے کر لوگوں کو اخبارات کی طرف مائل کرتے تھے۔ غرض ایک عجیب منظر دیکھنے کو ملتا تھا۔ مگر ڈیجیٹل کہلانے والے دور نے ایسے حضرات کے کام کاج اور لوگوں کے اس ذوقِ مطالعہ پر گویا ڈھاکہ ڈالا ہے اور اس طرح کمانے والوں کی روزی روٹی کو چھین لیا ہے۔ گو کہ کہیں کہیں آج بھی یہ آوازیں سنائی دیتی ہیں مگر گزشتہ ایام کی دلچسپیاں اور سرگرمیاں سرد پڑگئی ہیں۔
یہاں پر یہ لکھنا بھی مناسب ہوگا کہ انٹرنیٹ اور دیگر وسائل سے موجودہ دنیا digital world کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ مگر اس کے ہوتے ہوئے بھی یورپی ممالک کتابوں اور رسائل و جرائد سے بے اعتنائی نہیں برت رہے ہیں۔ وہاں کے باشندگان برابر دوران سفر بسوں، ٹرینوں اور جہازوں میں کتابی مطالعہ و اخبارات و رسائل کے مطالعہ میں مگن رہتے ہیں۔ کتابوں سے بیزاری و دوری زیادہ تر ایشیائی ممالک کے لوگوں میں ہی نظر آتی ہے۔ پھر بھی مجھ جیسے کاغذی کتابوں کے شیفتگان پر اعتماد ہیں کہ ساری دنیا کو ان کتابوں کی ضرورت ہے اور کتابیں برابر چھپتی رہیں گی اور پڑھنے والے ان کی تلاش میں رہیں گے اور کتابوں کی خوشبو اور مہک سے دنیا برابر معطر ہوتی رہے گی۔
ہر سال اپریل کی تیئس(۲۳) تاریخ کو عالمی یوم کتب کے طور پر منایا جاتا ہے اور علم و ادب کی اہمیت اور ضرورت مختلف سیمیناروں اور جلسہ گاہوں میں بتائی جاتی ہے۔ مگر دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ یہ یومِ کتب کا یہ دن زبانی تقریروں تک محدود رہتا ہے۔ زمینی حقائق میں کچھ ردو بدل نہیں ہو پاتا ہے۔ دانشور حضرات ، علماء کرام، یونیورسٹیوں کے پروفیسر حضرات مدرسوں اور درسگاہوں کے اساتذہ کرام کے علاوہ محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ علم و دانش کے فروغ کیلئے عملی طور پر کتابوں سے دوری اختیار کرنے والوں اور نئی پود کے طلباء اور طالبات کو ڈیجیٹل درس و تدریس کے ساتھ ساتھ کتابی مطالعہ کی طرف راغب کریں۔ بقولِ شاعر ؎
سرور علم ہے کیف شراب سے بہتر
کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر
رابطہ۔9419674210