Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

وہ جوگی پھر آیا

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: November 12, 2017 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
19 Min Read
SHARE
حلیمہ جب چھوٹی تھی ۔ ماں کے ہر کام میں ہاتھ بٹانا اس کا معمول تھا ۔  تینوں بھائی بہن ماں کے دلارے تھے اور  ہر شام ماں کے ساتھ چپکے بیٹھے رہنے کے عادی بھی ۔ برفیلے موسم میں ماں دن بھر کے سارے کام نپٹا کر جب شام کو چرخہ کاتنا شروع کرتی تھی  تو بچوں کو اپنے پاس بٹھا کر انہیں کہانیاں سنایاکرتی تھی ۔ باہر کڑاکے کی سردی۔ اندر کمرے میں دیئے کی ٹمٹماتی روشنی ۔ اور ماں چولہے سے  دہکتے  انگارے نکال نکال کر ٹھنڈے کوئلوں کے ساتھ سماوار میں ڈالتی۔  سماوار حلیمہ کے سامنے  رکھتی جو  پھونکیں مار مار کرکوئلوں کو سرخ کر دیتی۔  سماوار میں نون چائے ابلنے لگتی ۔ کبھی کبھی شوق میں نون چائے کے بدلے قہوہ بنا لیتے ۔ حلیمہ گرما گرم قہوے کے پیالے اپنے باپ  ، ماں اور دونوں بھائی بہن کے سامنے رکھ کر اپنا پیالہ لیکرماں کے ساتھ بیٹھ جاتی ۔۔۔  ماں کہانی سناتے سناتے انہیں یہ بھی سکھاتی جاتی تھی کہ چرخے پر اُون کس طرح سے کاتا جاتاہے ۔ اون کوپہلے کس طرح صاف کیا جاتا ہے۔ ڈنڈی سے چرخی کیسے گھومتی ہے۔  بات بات میں ماں اپنا سارا ہنر اپنے بچوںکو دیتی جاتی تھی ۔ 
باہر ہلکی ہلکی برف باری شروع ہوگئی تھی ۔  ماں چرخے لے کے بیٹھ چکی تھی ۔تکلے کی چمڑی میں انگلیوں سے تھوڑا سا سرسوں کا تیل لگایا ۔  ایک ہاتھ سے  پہیئے کی ہتھی کو گھمانا شروع کیا ۔  تکلا بنا  ا ٓواز کئے  آہستہ آہستہ گھومنے لگا ۔ اب اس نے دوسرے ہاتھ میں پونی کا ایک سرا پکڑ کر اس کو گھومتے ہوئے تکلے کی نوک کے ساتھ لگایا اور  پونی کو ہلکی رفتار کے ساتھ بل کھاتے تکلے سے دُور لے کر گئی  تا کہ دھاگا ٹوٹنے نہ پائے اور بل کھانے سے سُوت بھی بنتا  جائے۔  مناسب دوری پرہاتھ لے جا کر پہیہ روک کر  پونی سے بٹے ہوئے سوُ ت کوتکلے پر لپیٹ دیا  اور تند ڈالنے کا یہ عمل باربار دہرانے لگی۔  باپ نے دروازے کھڑکیاں بند کرلیں ۔  چھوٹی حلیمہ نے اسے کانگڑی دی ۔ سامنے گرما گرم قہوے کا پیالہ رکھ دیا۔  ا ور خود بہن بھائی کے اُوپر سے پھلانگ کر ماں کے ساتھ چپک کر بیٹھ گئی ۔  ماں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور کہانی کو  آگے  بڑھایا ۔
ـ ’’ ان کی شادی کو بارہ سال ہوگئے تھے  لیکن ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی ۔وہ حکیموں اور ویدوں کے پاس گئے۔  تعویذ گنڈے کئے۔   ٹونے ٹوٹکے آزمائے۔  پر بچہ نہ ہوا۔  وہ خیرات کرتے  رہے ۔صوفی سنتوں کو کھانا کھلاتے رہے۔  پیروں فقیروں کے در کھٹکھٹائے۔ پر ان کے نصیبوں کے در  وا  نہ ہوئے۔  پھر ایک دن ان کے آنگن میں ایک جوگی آ گیا۔ جوگی کی آنکھوں میں سرخ ڈورے تیر رہے تھے۔  جیسے اس کی آنکھوں میں خون کا سمندر موجزن تھا۔  انہوںنے جوگی کی بڑی منت سماجت کی۔  تب جاکر جوگی کا دل پسیجا ۔۔۔ ‘‘
’’ میں بچہ تو دوں گا لیکن یہ بچہ صرف اٹھارہ سال تم لوگوں کے پاس رہے گا ۔ اٹھارہ سال کے بعدبچہ مجھے واپس کرنا ہوگا ۔ ‘‘  پہلے تو ان کی زبانیں  لڑکھڑاگئیں ۔ لیکن جب جوگی  غصہ ہوگیا تو انہوں نے جلدی میں اٹھارہ سال کو  ایک صدی کا سکھ جان کر اقرار کرلیا۔ جوگی نے  ان سے وعدہ لیا  اور کنول کا ایک  پھول دے کران کی نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔‘‘
وقت کب دبے قدموں گزر گیا ۔حلیمہ  بڑی ہوگئی پھر پیاکے گھرچلی گئی  پتہ ہی نہ چلا لیکن اس سب میں  ماں سے سنی درجنوں کہانیوں میں ایک جوگی کی کہانی حلیمہ کے ذہن کے سکرین پرجیسے منجمدہوکر رہ گئی تھی ۔  یہ کہانی اس کے دل اور اس کی روح پر  اندیشوں اور وسوسوں کے ہتھوڑے برساتی  رہتی تھی ۔  ڈر اور خوف اسکے رگ و ریشے میں سرایت کرجاتے ۔ وہ اکثر بات کرتے کرتے کھو جاتی  ۔
شادی کاپہلاسال حلیمہ کی زندگی کاپر سکون سال گذرا ۔ پھر دو سال تک دن اور شام کا کھانا اس نے آنسوں میں بھگوبھکو کر کھایا۔  ساس کے طعنوں اور شوہر کی بے رخی نے اس کی رس بھری زندگی میں زہر کھول دیا ۔ ڈاکٹر ، اسپتال، کلنک ، لبارٹریاں  سب اس نے چھان ماریں  لیکن اس کی کوکھ خالی کی خالی ہی رہی ۔ وہ تو بھلا ہو گل رخ کاجس نے اسے بتایا کہ وہ بابا رشی کے دربار میں حاضری دے کرآئے ۔ جو وہاں جاتا ہے ، جھولی بھر کے واپس ا ٓ جاتا ہے ۔ گل رخ حلیمہ کی بچپن کی سہیلی جو شادی کے کئی سال بعد اسے ملی تھی ۔  حلیمہ  نے بڑی مشکل سے اپنے شوہر کومنایا اور اسے ساتھ لے کر بابارشی کی درگاہ  پہنچ گئی ۔ یہاں اس جیسی کئی شادی شدہ لڑکیاں آئی ہوئی تھیں جن کی جوانی کو گہن لگ چکا تھا ۔  ان کے شوہر ان سے نالاں تھے اور ساسیں ان کی زندگی  اجیرن بنائے ہوئی تھیں ۔ کئی تو خودکشی کرنے پہ مجبور تھیں ۔ کئی ایسی تھیں جنہیں شوہر طلاق کے نام پر دھمکا رہے تھے ۔ یہ سب بڑی امیدیں لے کر  یہاں آئی ہوئی تھیں۔  بابارشی کی یہ درگاہ ان سبھی مرجھائے جسموں میں تاز گی اور آنسوبھری آنکھوںمیں رمق بخشنے کا آخری سہارا تھی ۔   حلیمہ نے بھی اپنی باری پر درگاہ  کے  چولہے کی لپائی کی ۔ روتے روتے بچے کی بھیک مانگتی رہی۔ مٹی میں پانی سے زیادہ اس کے آنسومل رہے تھے جن سے درگاہ کا چولہاتر ہوتا جارہاتھا ۔۔۔ 
ہوا میں شامل شام کی ہلکی سی خنکی بھرا خیال حلیمہ کو پھرماں کے پہلو میں لے کر آگیا۔۔۔  ماں کی کہانی کا سلسلہ پھر جڑ گیا تھا ۔۔۔۔   ماں کے چرخے کا دھاگا ٹوٹ گیا ۔ تو وہ چرخے کی طرف متوجہ ہوگئی ۔ دھاگا ٹھیک کرنے لگی۔  بچے بے چین ہوگئے ۔  وہ  سارے سانس روکے ماں کو تک رہے تھے ۔  حلیمہ کا باپ تڑپ اٹھا ۔شاید وہ بھی کان لگا کرکہانی سن رہاتھا ۔ اس نے جلدی سے کہا
ــ ’’  حلیمہ کی ماں ۔۔۔   پھرکیا ہوا ۔  کیا ان کا بچہ ہو گیا  ؟‘‘  حلیمہ کی ماں کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں ہوگئی۔  اس نے شوخ نظروں سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا 
’’ ہاں ۔ ۔۔  لیکن  جوگی نے کہا تھا صرف اٹھارہ سال۔  ‘‘
باباریشی سے واپسی پر حلیمہ بہت غمگین تھی لیکن وہ  پُر امید بھی تھی  ۔  دونوں بس میں سوار ہوگئے ۔ اس کا شوہر خاموش بیٹھا تھا ۔ ۔۔  آستانہ عالیہ سے وہ صبح ہی گھر کے لئے روانہ ہوگئے تھے۔ یہاں سے ان کا گھر ڈیڑھ سو کلومیٹر سے کچھ زیادہ ہی دور تھا ۔  نیشنل ہائے وے پر  جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ ایک تو  حالات کی  وجہ سے جگہ جگہ چیکنگ ہورہی تھی ۔ دوسری بات سڑک کو کشادہ بنانے کا کام شدومد سے جاری تھا اور کئی جگہوںپر وہ سینکڑوں سال پرانے ہرے بھرے چنار کاٹے جارہے تھے، جو سڑک کر بیچوں بیچ آرہے تھے۔
یہ بہار کی آمد آمد کا موسم تھا۔ اس موسم میں کشمیر میں جگہ جگہ شجر کاری کی جاتی ہے۔  اور بازاروں میںچھوٹے چھوٹے پودے بیچنے والوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ سیب ، چری، بادام اور کئی دوسرے میوہ جات کے ساتھ ساتھ سفیدے، کانی فر اور دیودار کے پیڑ بھی بکتے ہیں ۔ حلیمہ جب اپنے شوہر کے ساتھ اپنے نزدیکی بس سٹاف پر اتری تو یہاں  پودے بیچنے والوں کی  بھاری بھیڑ تھی۔ اس کے شوہر نے بھی کچھ پودے خریدے اور اب تانگہ لانے چلا گیا تھا ۔یہاں سے ان کے گائوں تک تانگے بھی مل جاتے تھے لیکن زیادہ تر لوگ پیدل ہی گھروں کو چلے جاتے تھے۔  حلیمہ کی نظر  الگ تھلگ پڑے ایک چھوٹے مگر بے ڈھنگے  پودے پر پڑی۔
’’ یہ کونسا پودا ہے‘‘ 
’’ یہ چنار ہے ‘‘
’’اچھا ۔۔۔ میں نے چنار کا اتنا چھوٹا پودا نہیں دیکھاتھا ۔ا ٓپ یہ بیچتے ہیں ‘‘
نہیں ! اسے بیچتے نہیں ہیں ۔ یہ کبھی کبھی پودوں کی نہالی میں اُگ آتے ہیں ۔ پھر انہیں نکال کرہم پھینک دیتے ہیں۔ یہ ان پودوں میں پھنس کر یہاں تک آگیا ہے ۔۔۔ تم لو گی ۔  ‘‘
’’ کتنے میں دوگے ‘‘
’’ ارے اس میں پیسے کیا دینے ہیں۔ ایسے ہی لے لو ۔ ویسے بھی یہ پھینکنا ہی تو ہے ‘‘
اس کے  شوہر نے پہلے بہت غصہ کیا لیکن جب اسے یہ پتا چلا کہ چنار کا پودا مفت ملا ہے تو دوسرے پودوں کے ساتھ باندھ کر اسے بھی گھر لے آیا۔  
اب تو حلیمہ ڈیڑھ سالہ عامر کی ماں تھی اور ماں کی زبان سے جوگی کی کہانی سنے بھی سال ہا بیت چکے تھے۔  لیکن وہ اس کے ذہن میں کچھ اس طرح  سے بیٹھ چکی تھی کہ ہزار بار  ذہن جھٹکنے کے باوجود بھی  اسے اپنے  وجود سے الگ نہ کر پاتی تھی ۔ ۔۔
حلیمہ نے چھوٹے چنار کا تنا  اپنے دونوں ہاتھوں میں لے لیا۔  وہ ہر روز دونوں ہاتھوں کے  انگوٹھے اور انگلیاں ملاکر  اس کی موٹائی ناپتی رہتی تھی۔ عامر دوڑ کرا ٓیا اور چنار کے ساتھ لپٹ گیا۔چھوٹا سا چنار اوپر تک ہل کررہ گیا۔ حلیمہ نے عامر کو  اپنے بازو کے حلقے میں لے کر سینے سے لگایا ۔دائیں گال کا بوسہ لیتے ہوئے کہا ۔
ـ’’ یہ چنار کا  چھوٹا سا پودا تیرے ساتھ ساتھ بڑا ہوجائے گا۔  بڑا  ہوکرجب یہ  تناور درخت بن جائے گا ۔یہ ہمیں چھائوں دے گا ۔  میں اس کی موٹی شاخ سے رسی باندھ دوں گی ۔ تم اور تمہارے بچے اس پر جھولا جھولیںگے ۔‘‘
عامر ماں کی بات سے بے نیاز چنار کے پتے کوانگلیوں سے مسل رہا تھا۔
یہ چنار عامرسے نو ماہ بڑا تھا۔  عامر اگر حلیمہ کے دل کا قرار تھا تو یہ چنار اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھا ۔  وہ جتنی محبت عامر کے ساتھ کرتی تھی اسکے برابر اسے چنار سے بھی لگائو تھا۔  یہ چھوٹا سا چنار تب اس کی زندگی کا حصہ بن گیاتھا جب اسے اپنا سارا وجود  اپنی خالی کوکھ کی طرح سونا سونا لگ رہاتھا ، جب تنہائی کے درد وکرب سے اس کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح بھی مجروح  ہو چکی تھی ۔۔۔  عامر  اپنی ماں کو روز اس کی جڑوں میں پانی ڈالتے ہوئے دیکھتا تھا۔ جب اس نے ہاتھ پیر ہلانے شروع کردیئے تو وہ حلیمہ کو چنار میںپانی ڈالنا یاد دلاتا تھا۔ اب تو روز صبح و شام  دونوں ماں بیٹے  پاس والے چشمے سے پانی لا لاکر اس کی جڑوں میں ڈال دیتے تھے۔ جب عامرا سکول جانے لگا تو حلیمہ نے چنار کی شاخ پر رسی باند ھ دی ۔  جس کے ساتھ اسکول سے آنے کے بعد عامر جھولا جھولتا تھا۔    
لیکن بڑا ہوتے ہی عامر چنار سے دور ہوگیا۔ اسے چنار کی چھائوں راس نہ آئی۔ وہ خار دار راہوں کامسافر ہوگیا۔ اس نے اپنے لئے تپتا صحرا  چنا  اور اوردھوپ کا مکین ہوگیا ۔یہاں ہوا ہی کچھ ایسی چلی تھی کہ بچے جوان ہونے سے پہلے ہی قتل گاہ پہنچا دیئے جاتے تھے۔  ماں باپ بچوں کے جوان ہونے سے خوف زدہ تھے  ۔ وہ چاہتے تھے ان کے بیٹے ہمیشہ بچہ بنے رہیں ۔  جوانی کی دہلیز خون کی لکیر لگ رہی تھی ۔  بڑی مشکل سے بچے اسے پار کرپاتے تھے  ۔  کالج میں قدم رکھتے ہی عامر بھی حالات کے ہتھے چڑھ گیا ۔ اور ایک دن  فجر سے پہلے ہی وہ گھر سے بھاگ نکلا۔  پھر کبھی واپس لوٹ کر نہیں آیا ۔ اس کے جاتے ہی گھر عتاب کا شکار ہوگیا۔  اس کی تلاش میں ہر رو ز کوئی نہ کوئی  ا ٓنے لگا  اور ایک دن اس کی تلاش میں آئے وردی پوشوں پر پتھرائو ہوگیا تو اس کا  باپ ان کے غصے کے ہتھے چڑھ گیا۔
حلیمہ کی راتوں کی نیند اور دن کا چین اڑ چکے تھے۔ وہ ہر صبح گائوں کے چشمے کے کنارے بیٹھ جاتی ۔ جس میںدور دور تک کنول کے پھول کھلتے تھے۔  وہ چشمے کے شفاف پانی میں عامر کا عکس تلاشتی رہتی  جو اکثر  اس کے ساتھ یہاں آکر پانی میں اپنا ہلتا ڈلتا عکس دیکھ کر خوش ہوجاتا تھا۔  اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں کنول کے پھول لے کر پانی پر مارتا تھا۔  ہاتھوں سے پانی کو ہلا جلا کر اپنا عکس پانی پر بکھرا  دیتا تھا اور خوش ہوکر چلاتا رہتا  تھا۔حلیمہ اسے خوش دیکھ کر اور زیادہ خوش ہوجاتی تھی۔ ۔۔  وہ خیالوں میں ذہن کے اسکرین پر عامر کا عکس ابھار لاتی ۔ پھر وہی عکس دیر تک چشمے کے پانی میں تلاشتی رہتی لیکن عامر کے ننھے ہاتھ اس کے تخیل میں بساچہرا ٹھہرنے نہیں دیتے ۔  جونہی شکل بننے لگتی اسی وقت وہ بکھر کر پانی میں گدمڈہوجاتی۔ وہ ٹُکرٹُکر پانی پر دیکھتی رہتی۔ لیکن یہاں  اسے عامر کے بدلے اپنی ہی صورت نظر آتی  ۔  وہ غصے میں عامر کی طرح دونوں ہاتھ پانی کی سطح پر مارتی۔  اس کی صورت ٹوٹ کربکھر جاتی   ۔انگلیوں سے پانی کو زور زور سے ہلاتی  توشکل پانی کی لہروں  میں تحلیل ہوکر گم ہو جاتی ۔ وہ پانی سے  ایک ہی جگہ رکے رہنے کی التجا کرتی۔ چشمے کے کنارے کو دو نوں ہاتھوں سے پکڑ لیتی  ۔ پانی سے اپنے بیٹے کا عکس مانگتی ۔  یہ عمل وہ ہزار بار دہراتی ۔   
ماں سے سُنی جوگی کی کہانی  اور باپ کا  سوال اس کی سماعت سے بار بار ٹکراتا رہتاتھا ۔
ــ ’’  حلیمہ کی ماں ۔۔۔   پھرکیا ہوا ۔  کیا ان کا بچہ ہو گیا  ؟ ‘‘  
’’ ہاں ۔۔۔  لیکن جوگی نے کہا تھا صرف  اٹھارہ سال ۔ ‘‘
ماہ وسال بدلے ۔۔۔ گائوں کے حال احوال بدلے  ۔۔۔  حلیمہ کے خدوخال بدلے۔۔۔  بہت بار چنار کے پتے جھڑ گئے اور نئی کونپلیں پھوٹ پڑیں۔ اس کے بازوں کے حلقے ترستے رہے۔  اب تو چنار بھی اس کی باہوں میں سما نہیںپاتا تھا۔  دیر تک کھڑا رہنے اور راستہ تکتے رہنے کی ا ب اس میں سکت بھی نہیں تھی۔ لیکن وہ پھر بھی روز گائوں سے نکل کریہاں بہت دیر تک کھڑی رہتی تھی ۔ راستہ تکتے تکتے اس کی نظریں تھک جاتی تھیں ۔اس کی آنکھوں میں آنسوبھر جاتے تھے  ۔  شہر سے گائوں کی طرف آتی پگڈنڈی اسے دھندلی دھندلی  نظر آنے لگتی۔  تو وہ ٹوٹے  قدموں کے ساتھ گھر لوٹ آتی ۔  چنار کے پیڑ کے ساتھ لپٹ جاتی۔ زار زار روتی اور رورو کر چنار کو اپنے دل کا درد سناتی۔ 
’’کیا کسی کا ایک دن ایک صدی کے برابر ہوتا ہے ؟ ‘‘ چنار کے تنے سے چہرہ مس کرتے ہوئے وہ درد بھرے لہجے میں بولتی
’’ ہوتا ہے۔جس کا دنوں،  مہینوں اور برسوں کا حساب گڑمڑ جاتا ہے۔ جو راستہ تکتی رہتی ہے۔ لیکن راہ گزر سے راہ گیر نہیں آتا ۔ ‘‘
وہ آج صبح بھی  برستی آنکھوں سے آسمان کو  تک رہی تھی  اور دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر چھوٹی سی دعا مانگ رہی تھی۔
 ’’ میرے  مولا۔۔۔  میرابیٹا  لوٹا دے ۔ ۔۔  اور  ۔۔۔ مجھے موت دے دے  ۔۔۔۔  میں نے سنا ہے۔ ۔۔  بیٹے تب شہر سے گائوں    لوٹ آتے ہیں۔  جب  مائیںمرجاتی ہیں  ۔۔۔۔ ‘‘
 
���
رابطہ؛ اسلا م آبادفون نمبر9419734234
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

لداخ میں لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ | شیوک روڈ پر پھنسے دو شہریوں کو بچا لیا گیا
جموں
کاہرہ کے جوڑا خورد گاؤں سے کمسن بچی کی لاش برآمد پولیس نے معاملہ درج کر کے تحقیقات شروع کی
خطہ چناب
سانبہ میں بی ایس ایف اہلکار کی حادثاتی موت
جموں
سکولوں کے نئے اوقات کاررام بن ۔ بانہال سیکٹر کے سکولوں کیلئے غیر موزوں میلوں کی پیدل مسافت کے بعد طالب علموں سے آن لائن کلاسز کی توقع زمینی صورتحال کے منافی
خطہ چناب

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?