حامد نے مجنون جیسی شکل وصورت بنا رکھی تھی لمبے لمبے بال ‘بے ترتیب داڑھی ‘ بے ڈھنگ لباس۔اس کے چہرے پرہر وقت اُداسی چھائی رہتی۔ وہ گلی کوچوں میں‘سڑکوں پر دیوانہ وار پھر کر خود سے ہی بڑ بڑاتا رہتا۔
’’وہ آئے گا ۔ضرور آئے گا۔‘‘
اس بھری دنیا میں حامد کو کسی کے آنے کا انتظارتھا، کوئی آنے والاتھا۔۔ ۔۔۔۔؟؟یہ بات اس کے اندر ہی پوشیدہ تھی اور اس مصروف دنیا میں کس کو پڑی تھی کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا۔اس بھاگم بھاگ میں جہاںدم ٹھہرانے کی فرصت بھی نہیں ملتی تو کوئی کیوں کر کسی کی فکر کرے۔البتہ ماں ۔۔۔۔ ہاں ماں ممتا کی دیوی ًًًً۔۔۔اپنے بیٹے کی یہ حالت دیکھ کرخون کے آنسو روتی تھی۔ اپنے جوان بیٹے کو بکھرتے دیکھ کر تلملا اٹھتی۔وہ حامد سے پوچھ بیٹھی۔
’’تم اتنے اداس کیوں رہتے ہو۔‘‘
پھر بیٹے کا چہرہ سہلاتے ہوئے سمجھاتی۔
’’یہ دنیا بہت خوبصورت ہے یہ ندی نالے ‘سبزہ زار‘ کوہسار۔تم نیچر انجوائے کیوں نہیں کرتے۔‘‘
حامد ایک جگہ پر بت کی طرح ساکت ہوکر رہ گیا، پھر کچھ توقف کے بعد ماں کے قدموں میں جاکر اس کے پائوں دباتارہا۔ماں نے ایسا کرنے سے جب منع کیا تو حامد بھڑک اٹھا۔
’’اتنی کٹھور مت بنو ماں۔مجھے اپنے قدموں میں پڑے رہنے دو۔مجھے اپنے قدموں میں انتظار کرنے دو ۔وہ آئے گا۔‘‘
بیٹے کی بہکی بہکی باتیں سن کر ماں پوچھ بیٹھی۔
’’کون آئے گا۔‘‘
حامد نے ماں کی باتوں کی ان سنی کرتے ہوئے چپی سادھ لی۔ماں بے چین ہو اٹھی اورحامد کو گلے لگا لیا اور بے شمار بوسے دئیے۔ ماں کی ممتا کے ساگر میں ڈراونی موجیں اٹھنے لگتیں۔وہ یہ سوچ کر گھبرا سی جاتی کہ شاید حامد پر بھوت پریت کا اثر ہے۔ یہ مکان خریدتے وقت کئی لوگ انکشاف کرچکے تھے کہ یہ آسیب زدہ مکان ہے اور وہ مکان خریدنے سے منع بھی کرچکی تھی مگر اس کی بات سنی ہی کب گئی۔اس کے خاوند نے لو گوں کی باتوں کو توہمات سے جوڑ کر یکسر مسترد کردیا تھااور ہمسائیوں کی کارستانی بتا دیا تھا۔حامد جسمانی طور پرمضمحل ہو چکا تھا کیونکہ وہ اکثر اپنے ہی خیالوں میںکھویا رہتا۔ماں کئی مرتبہ اس سے کہہ چکی تھی کہ بزنس میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹالے۔مگر حامدنے کبھی بھی بزنس میں دلچسپی نہیں دکھائی دی وہ جب بھی گھر سے نکلتا تو ماں سے کہہ کر جاتا۔
’’میں اُسے دیکھنے جائوں۔وہ آئے گا ۔‘‘
پھر وہ گلی کوچوںاور بس اسٹاپ کے چکر لگاتا رہتامگر ماں کو اس طرح بیٹے کا بے مقصد گھومنا پھرنا اچھا نہیں لگتا تھا ۔اپنے میاں سے ایک موقع پرکہہ اٹھی ۔
’’تم اپنے بیٹے کے تعلق سے اس قدر بے پروا رہوسکتے ہو یہ میں سوچ بھی نہیں سکتی ۔‘‘
’’ارے بیگم تم اتنی پریشان کیوں ہو رہی ہو ۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’ اجی میری بات سنئے بیٹے کو کسی پیر صاحب کے پاس لے چلیں۔‘‘
اس پر میاں ہنس پڑے ۔
’’ارے بیگم میں ان باتوں میں یقین نہیں رکھتا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ گھر سے نکلے تو بیگم نے جاتے ہوئے آواز دی۔
’’تم نہیں آتے تومت آئو میںخود ہی اس سے لے کر جاتی ہوں۔‘‘
پھر وہ کئی دنوں تک اس بات کی کھوج لگاتی رہی کہ کس پیر صاحب کے پاس لے چلیںاور معلوم کرنے کے بعد وہ آخر بیٹے کو پیر صاحب کے پاس لے چلی۔پیر صاحب اپنے سوالوں کو تسلی بخش جواب سن کر بولے
’’یہ بالکل ٹھیک ہے فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘
ماں بولی
’’پیر صاحب یہ ہر وقت بہکی بہکی باتیں کرتا رہتا ہے۔وہ آئے گا ۔مجھے اس کا انتظار ہے۔‘‘
بغل میں بیٹھے بیٹے نے ہنسی بکھیرتے ہوئے کہا
’’ماں ہم سب کو دانستہ یا نادانستہ طور پر اس کا انتظار ہے مگر لوگ دنیا کی رنگ رلیوں میںمست ہوکر بھول چکے ہیںکہ انہیں کسی کا انتظار ہے۔‘‘
پیر صاحب نے کچھ تعویذ دیکر دونوں کو رخصت کیا ۔راستے میں ماں سمجھاتی رہی۔
’’بیٹے اب تم جوان ہوگئے ہوتمہیں کوئی کام کرنا چاہیے۔‘‘
مگراس نے ہر بار کی طرح اس بار بھی خاموشی اختیار کی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ماں کی پریشانیاں بھی بڑھتی گئیں۔پھر ایک دن ماں سے رخصت لے کر حامد بس اسٹاپ کی طرف چلاگیا، جہاں مختلف علاقوں سے گاڑیاں آکر ٹھہر جاتیںاور مسافر اتر کر اپنے اپنے گھروں کوچلے جاتے۔ان مسافروںکو اُترتے دیکھ کر حامد بڑبڑایا ۔
وہ آئے ۔۔۔۔۔۔۔ضرور آئے گا۔‘‘
پھر وہ بس اسٹاپ پر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتا رہا۔کچھ دیر کے بعد تیز تیز ڈگ بھرتے ہوئے سڑک کراس کرنے لگاتو ایک تیز رفتار گاڑی سے ٹکرا کر چند گز دور جا گرا اور سارا جسم مضروب ہوگیا ۔وہ خون میں لت پت تڑپتا رہا۔لوگ اس کے ارد گرد جمع ہوگئے وہ واویلا کرنے لگے۔حامد کی ماں کو کسی طر ح خبر ہوئی جو دوڑتی ہوئی آئی اور روتی بلکتی بیٹے کو گلے سے لگا کر بولی ۔
’’یہ تم نے کیا کیا بیٹے ۔‘‘
بیٹا بپھرتی آواز میںبولا۔
’’ماں ۔۔۔۔میرا انتظار ختم ہوگیا ۔وہ آگیا۔۔۔۔۔۔ماں ۔۔۔۔وہ آگیا۔‘‘
ماںسینہ پیٹتے ہوئے بولی ۔
’’کون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگیا ہے ۔۔۔۔۔ بیٹے۔‘‘
وہ بمشکل بول پایا۔
’’موت کا فرشتہ۔‘‘
اور وہ ہمیشہ کے لئے چپ ہوگیا۔۔۔۔
���
دلنہ بارہمولہ،موبائل نمبر؛6005196878