میں سمجھتا ہوں کہ بین الاقوامی شہر ت یافتہ پیش گو ڈاکٹر ناسٹراڈ یمس متوفی1566ء نے آج سے زائد از ساڑھے چار سو برس شاید یہ پیش گوئی ہمارے لئے ہی کی تھی :۔
نئے شہر کے قریب کرۂ ارض کا باغ۔ کھوکھلے پہاڑوں کی سڑک اس پر قبضہ کرکے اسے تالاب میں پھینک دیا جائے گا اور گندھک سے زہریلا بنایا گیا پانی پینے کیلئے مجبور کیا جائے گا۔( سینچری۔10قطعہ49)
پیش گوئی وقت اور جگہ متعین کئے بنا ہی ہمیشہ مبہم الفاظ میں ہوتی ہے۔ میں نہیں کہتا کہ یہ خدائی یا کسی پیغمبر کا کلام ہے جس پر سو فی صد اعتبار کئے بنا کوئی چارہ نہیں۔ چونکہ ڈاکٹر موصوف کا بڑا چرچا ہے اور اُس کی پیش گوئیوں پر تالیف شدہ کتاب ہاتھوں ہاتھ بک چکی ہے، اس لئے میں نے اس پیش گوئی کا برسبیل تذکرہ ذکر کیا۔ اُن دنوں سارے یورپ میں نصرانی مذہبی عدالتیں ذرا ذرا سی حرکت پر لوگوں کو جنونی اور جادو گر قرار دے کر زندہ جلانے کا حکم دیا کر تی تھیں۔ اس بات سے تو دنیا واقف ہے کہ جونؔ آف آرک بھی ایک ایسی ہی دوشیزہ تھی جو اُنہی عیسائی عقائدکی نفرت اور تنگ نظر کی شکار ہو کر سن 1431میں جادوگرنی قرار دے کر زندہ آگ میں ڈال دی گئی تھی۔ حالانکہ اُس مجاہدہ نے اپنے وطن کو انگریزوں کے قبضے سے آزاد کرالیا تھا۔ ڈاکٹر دیمس بھی ، ظاہر ہے کہ اس تنگ نظری اور چرچ کے فاسد عقائد سے واقف رہے ہوں گے، اس لئے لگتا ہے کہ انہوں نے کھل کر کوئی بات نہیں بتائی، مبادا اُسے جادوگر یا اور کچھ نہ قرار دیا جائے ۔البتہ اگر غور کیا جائے تو بات بآسانی سمجھ میں آتی ہے او ریہ اپنی ریاست سے متعلق سچی بھی لگتی ہے۔
موجودہ زمانے کا پاندر یٹھنؔ ایک ہندو راجا نے بسایا تھا۔ ملک کا دار الخلافہ ہونے کے ساتھ یہ ایک نیا شہر بھی تھا۔ کرۂ ارض کا باغ سے مراد فردوس برروئے زمین لیا جاسکتا ہے جو اسی خطۂ ارض کیلئے مغل بادشاہ جہانگیر نے کہا تھا۔ اس کے قریب ہی جھیل ڈل بھی واقع ہے۔ کھوکھلے پہاڑوں کی سڑک سے مراد بانہال ٹنل اورحال ہی میں کھودی گئی ریلوے ٹنل سے یا دونوں سے لی جاسکتی ہے۔ گندھک سے پانی زہریلا بنانا بالکل صاف ہے کہ اس میں ہم مل موتر فضلہ ڈالتے ہیں جس میں اور تباہی کے علاوہ ہیپی ٹائٹس کے جرثومے بھی ہوتے ہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ زہریلا پانی پینے کیلئے مجبور کیا جائے گا۔اس سے کیا مردا ہے؟ غور کریں تو آسانی سے بات صاف ہو جاتی ہے کہ اُس کے لئے تو ہمیں کافی عرصہ سے مجبور کیا جارہا ہے۔ وہ اس طرح کہ جھیل ڈل کے بیمار زہر آلودہ پانی سے وہ زمینیں( ڈل کے اندر اور باہر) سینچی جاتی ہیں جن سے ہمارے لئے ہر سال لاکھوں ٹن سبزی ترکاری پید اہو کر ہمارے اجسام میں پہنچ جاتی ہے۔ ہم بے شک ڈل کا زہر آلود پانی ڈائرکٹ نہ پیتے ہوں مگر اِن ڈائرکٹ تو روز ہی پی لیتے ہیں۔ باقی سبزیاں پانی تو لیتی ہیںمگر دھوپ میں بھی نہلاتی ہیں، اس کے برعکس ندرو تو باہر کی دنیا یا تو دیکھتا ہی نہیں، گویا وہ سراپا زہر ہی زہر ہے۔
سبزی ترکاری ہمارے روزمردہ اورمعمول کے کھانے کا مینو ہے ۔اس طرح سے ہم کو زہر آلود پانی پینے کیلئے نہ صرف مجبور کیا جاتا ہے بلکہ حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ ہم خود ہی یہ پانی پینے کیلئے مجبور ہوگئے ہیں۔ شہر میں خاص طور پر زیادہ سے زیادہ دو فیصد لوگ ایسے ہوں گے جن کو اپنے ساگ زاروں سے سبزی حاصل ہوجاتی ہے ،وہ بھی ایک سبزی نہیں اور نہ ہی سال بھر کیلئے ۔لیکن باقی اٹھانوے فی صد لوگ بھی تو ہیں وہ کیا کریں؟ اُنہیں گرمیوں میں فارم ہائوس میں پیدا ہونے والی سبزی کے علاوہ ڈل پر نر بھر ہونا ہی پڑتا ہے۔ ہاں!البتہ سردیوں میں کچھ وقت کیلئے پنجاب سے ہر طرح کی سبزی ترکاری آتی ہے تو اس وقت ہم شاید کچھ عرصہ کے لئے زہر سے محفوظ رہتے ہیں۔
ناشادؔ اور نگ آباد ی کہتے ہیں ؎
پھینک کر کنکر ہمیشہ دائرے گنتے رہے
اچھی خاصی جھیل کو یاروں نے بنجر کر دیا
شاعر نے تو کنکر پر دُکھ کا اظہار کیا ہے اور وہ بھی ہماری جھیل کیلئے نہیں۔ اِدھر تو یہ صورت حال ہے کہ ہم بڑی بے دردی کے ساتھ کوڑا کچرا فضلہ بلکہ پیشاب پاخانہ بھی اس میں ڈال کر اپنے تئیں ’’سمجھ دار اور متمدن ‘‘ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو فہم و ادراک دیا تھا مگر افسوس کہ وہ ہم جھیل کے گندے پانی کے ساتھ ہی بہا چکے ہیں، کم ا زکم وہ لو گ جو جھیل کے ساتھ زیادتی جان کر اور سوچ سمجھ کر رہے ہیں۔
کہتے ہیں جاپان ؔ کے سمندروں کے نیچے ایک ایسا آتش فشاں پہاڑ ہے جو قبل از مسیح کبھی اُبل پڑا تھا جس کی وجہ سے کافی ساری انسانی آبادی تلف ہوگئی تھی اور جاپان قوم کی ایک شاخ پوری کی پوری نیست و ناباد ہوگئی تھی ۔ موجودہ وقتوں میں ماہرین کی رائے ہے کہ وہ پہاڑ کسی بھی وقت ( کوئی مدت تعین لئے بغیر) اُبل سکتا ہے جس کی وجہ سے پھر ایک بہت بڑی تباہی پھیل سکتی ہے اور سمندر کی لہریں چین اور امریکہ کے ساحلوں کی خبر لے سکتی ہیں۔ یہ آتشی و آبی قیامت اس قدر شدیدہوگی کہ اس سے دس کروڑ لوگ ہلاک ہوسکتے ہیں، دیگر تباہیوںکا کوئی اندازہ نہیں ہے۔
قارئین کرام جانتے ہیں کہ ایک ایسی چیتاونی اہل کشمیر کے کانوں میں کافی عرصہ سے گونج رہی ہے کہ تخت سلیمانؔ ؑ کی پہاڑی کے نیچے ایک ایسا لاوا موجود ہے جو پھٹ پڑنے کی صورت میں آدھی سے زیادہ وادی کو اپنے آتشیں قہر کا لقمہ بنا سکتا ہے۔ اب تک تو بیشتر لوگوں کا یہ حسن ظن تھا چونکہ پہاڑی کے کنارے پر جھیل اپنے پانیوں سے اس آتشی لاوے کو تھپکیاں دے دے کر شانت رکھتی ہے اور وہ آپے سے باہر نہیں جاتا مگر کچھ کہانہیں جاسکتا کبھی ڈل کا ٹھنڈا پانی جو شینل نہ رہ کر اب خاصا ناصاف گدلا گندہ اور زہر آلود ہو چکا ہے ،اگر وہ اُس آتشی دیو کو ٹھنڈا رکھنے میں ناکام رہا تو اُس کے نتیجے میں کیا ہوگا؟ سمجھنے والی بات ہے ۔ ہماری اپنی کرنی کے بنا پر بُری سے بُری بات متوقع ہے۔
ویسے بھی آئے دن مہینے میں دو تین بار ہم زلزلے کے جھٹکے محسوس کرتے رہتے ہیں۔ اُن زلزلوں کا مرکز اگر چہ کشمیر نہیں ہوتا مگر بار بار زمین ہلنے کا مطلب یہی ہے کہ ہم زمین میںآگ کی ایک بھٹی پر یا بہ الفاظ دیگر ’’ آتش زیر پا‘‘ کے مصداق بود و باش رکھتے ہیں۔ اللہ رحم کرے، اچھے کی ہی اُمید رکھنی چاہئے مگر اپنے اعمال و افعال کو دُرست کرنا اولین شرط ہے۔ لہٰذا قبل اس کے کہ ہم گرد وغبار کے ہیولے بن جائیں اور ہوا ہمیں کہیں دور دشائوں میں پھینک کر تحلیل کریں او ر’’ ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘ سنبھلنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995