وہ گلمرگ کی طرح خوبصورت مگر خوفزدہ اور مایوس تھی۔! اکثر کھوئی کھوئی سی رہتی تھی۔ گوکہ سارہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں تھی لیکن پھر بھی وہ سیانی لگتی تھی۔ جب بھی کوئی اُس سے اُس کے گھر کا ایڈرس ، باپ کا نام اور گائوں وغیرہ کا پتہ پوچھتا تھا تو وہ صرف ایک ہی جواب دیتی تھی۔ ’’میں وتستا کی بیٹی ہوں‘‘۔
کشمیر کے ہر ذرے کے ساتھ اُسے بے انتہا اُنس تھا۔ سرسبز درختوں کے کٹائو کا مسئلہ ہو یا جھیل ولر کی خستہ حالی کا سوال، کشمیر کی صنعاکاری سے بیر کا معاملہ ہو یا کشمیری سیبوں کے شہنشاہ عنبری کے زوال کا مسئلہ، یہاں کے روایتی فوک میوزک کے سُکڑتے ہوئے سُروں کا سوال ہو یا بھانڈ پاتھر (بھانڈ ناٹک) کے سسکنے کا غم۔ غرض سارہ بے چاری اکیلی یہ سارے غم اپنے اندر بسائے اپنے بھاشن (لیکچر) سے لوگوں کو ماں کی عظمت کا احساس دلاتی تھی۔
سارہ کا ہر گھائو صندل کی طرح خوشبو بکھیرتا تھا۔وہ تیس سال کی عمر میں کنواری تھی لیکن اوس کے قطرے کی طرح تروتازہ۔ کالی رات کے سکوت میں سارہ ہاتھ میں لال ٹین لئے سیاہ راہوں کو روشن کرتی تھی۔ بے مثال وطنیت کی بدولت سارہ نے بہت جلد لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ جب بھی کوئی اُس کے مذہب اور عقیدت کے بارے میںپوچھتا، وہ جلدی جلدی جواب دیتی تھی، انسانیت!
سارہ فکر کے دریچوں کو ہمیشہ وا رکھتی تھی۔ عالمی سیاست سے اگرچہ اُس کا کچھ لینا دینا نہیں تھا لیکن پھر بھی وہ گاوا، شام، لیبیا، افغانستان اور میانیمار کے مہاجرین کے لئے پراگندہ رہتی تھی۔
میرے دل میں ایک دن سارہ سے ملنے کی خواہش پیدا ہوئی کیونکہ میں اُسے قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔
’’تلاشنے والا منزل پا ہی لیتا ہے‘‘ کے مصداق ایسا ہی ہوا۔ مجھے سارہ شہر کے بڑے چوک میں ایک چائے کی دکان پر بیٹھی ہوئی دکھی۔ میں جاکر اُس کے روبرو بیٹھ گیا۔
کافی مدت کے بعد آج میں نے سارہ کو دیکھا تھا۔ اب سارہ کے بالوں میں چاندی پھیلنے لگی تھی!
’’کیا ہورہا ہے؟‘‘ میں نے سارہ سے پوچھا۔
’’حادثہ!‘‘ سارہ دفعتاً بولی۔
’’کس کا!؟‘‘ میں نے تعجب سے پوچھا۔
’’خوابوں کا‘‘ اُس نے جواب دیا۔
’’میں سمجھا نہیں‘‘ میں نے سارہ سے کہا۔
’’یہ حادثوں کا شہر ہے۔ یہاں ہر پل احساسات کا حادثہ ہوتا ہے۔ انسانی فکر لہولہان ہے۔ یہ شہرِ ظلمات ہے۔ یہاں قبریں تک بک رہی ہیں!‘‘ سارہ غصے میں غُرائی۔
’’آکھ۔۔۔ تھو‘‘ اُس کے بعد وہ بازار کی بھیڑ میں کھو گئی!!
اِس ملاقات کے 9مہینے بعد میں کسی کام کے لئے شہر آیا۔ کام پورا کرنے کے بعد میں اُسی چائے کی دکان پر گیا جہاں سارہ اکثر بیٹھا کرتی تھی۔ میں نے چائے والے سے سارہ کے بارے میں دریافت کیا۔
’’کیا کرو گے سُن کر؟‘‘ چائے والا اُبل پڑا۔
’’جی! پھر بھی‘‘ میں نے عاجزی سے پھر پوچھا۔
’’اُس دن جب وتستا کے بٹوارے کی خبر اخبار میں شائع ہوئی۔ خبر پڑھ کر سارہ غم سے نڈھال ہوئی۔ وہ چلا چلا کر بولی۔۔۔ ’وتستا میری ماں ہے۔۔۔ ماں کا بٹوارہ نہیں ہوسکتا! ماں۔۔۔ماں ہوتی ہے۔‘‘
چائے والے کی آنکھوں میں آنسو اُمڈ آئے۔ آنسو پونچھتے ہوئے چائے والا دھیمی آواز میں بولا۔
’’میرے بھائی! سارہ سے وتستا کا دُکھ سہا نہ گیا۔ سارہ وتستا کی بیٹی تھی۔۔۔ اُس نے خود کو وتستا کے حوالے کیا!‘‘
رابطہ: آزاد کالونی پیٹھ کا انہامہ
9906534724