طارق شبنم
’’شازیہ ۔۔۔۔۔۔ جلدی سے نا شتہ لگائو ،مجھے آفس کے لئے دیر ہو رہی ہے‘‘۔
’’آرہی ہوں با با ،بچوں کے لئے ٹفن تیار کر رہی ہوں ،ان کی وین آنے کا وقت ہو گیا ہے‘‘ ۔
شازیہ نے گردن کو خم دے کر شیرین آواز میںایک ادا سے جواب دیتے ہو ئے کہا تو شہباز ناشتے کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔
’’پا پا ۔۔۔۔۔۔ پا پا ۔۔۔۔۔۔اٹھو ،ہمیں سکول کے لئے دیر ہو رہی ہے ‘‘۔
شہباز ،جو لحاف اوڑھے مزے کی نیند سو رہا تھا، کی سماعتوں سے اس کی بچی نا زمہ کی معصوم آواز ٹکرائی تو وہ خوابوں کے جزیرے سے باہر آکر ہڑ بڑاتے ہوئے اٹھ بیٹھا ۔اس نے دیوار پر لگی گھڑی کی طرف دیکھا تو صبح کے نو بج چکے تھے ۔
’’او مائی گارڑ ۔۔۔۔۔۔ اب کیا ہوگا‘‘ ۔
وہ جھنجھلاکر اٹھا ،اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کیا کرے ،پہلے واش روم جا کر فریش ہو جائے یا کچن میں جا کر بچوں کے لئے ناشتہ تیار کرے، کیوں کہ بچوں کی سکول وین آنے ہی والی تھی ۔
’’ بٹیا ۔۔۔۔۔۔ تم چھوٹو کو تیار کرو ،میں تب تک تمہارے لئے ناشتہ بناتا ہوں‘‘ ۔
کہتے ہوئے وہ کچن کی طرف گیا اور عجلت میں ناشتہ بنانے لگا۔۔۔۔۔۔
’’آجا بٹیا ناشتہ کرو‘‘ ۔
’’ نہیں پا پا ۔۔۔۔۔۔ وین آگئی ،ہم جارہے ہیں ۔۔۔۔بائی ۔۔۔ـــ۔۔‘‘۔
کہتے ہوئے اس کی بیٹی چھوٹے بھائی کاہاتھ پکڑ کر بغیر ناشتہ کئے سکول کے لئے نکلی اور شہباز سر پکڑ کر صوفے پر بیٹھ گیا ۔اس کے دل پر چھریاں چلنے لگیں،گھر کے در و دیوار اسے جیسے کاٹنے کو دوڑ رہے تھے ۔چند لمحوں بعد وہ واش روم گیا اور فریش ہوکر نکلا ،ماں کا ناشتہ لے کر اس کے کمرے میں گیا ،اس کو ناشتہ کرایا ،دوائی کھلائی اورتیار ہو کر دفتر کے لے نکل گیا ۔دیر سے دفتر پہنچنے کی وجہ سے باس کی جھڑکیاں سننے کے بعد کام میں مصروف ہو گیا، لیکن ذہنی پریشانی کے سبب کام بھی ٹھیک سے نہیں کر سکا۔ دوپہر کے وقفے کے دوران اسے بھوک محسوس ہوئی اور اُس نے کینٹین کا رخ کیا۔ ویٹر نے جونہی کھانا اس کے سامنے رکھا تو اسے اپنے بچے یاد آگئے جو صبح بغیر ناشتہ کئے گھر سے نکلے تھے اور دوپہر کا کھانا بھی ساتھ نہیں تھا۔اس پر پدرانہ شفقت اس قدر غالب آگئی کہ اس کی آنکھیں بھیگ گئی اور دم گھٹنے لگا ۔چند لقمے کھا کر ہی وہ اٹھ کر چلا گیا اورسخت کرب و ا ضطراب کی حالت میں دفتر میں بیٹھ کر اپنے آپ کو کوسنے لگا ۔
کل چھٹی تھی ،جس وجہ سے وہ اور بچے گھر میں ہی تھے ۔اس کی بیگم دن بھر ان کے ناز اٹھاتی رہی ،ان کے لئے قسم بہ قسم کے پکوان بنائے ،ان کے کپڑے دھوئے ،ان پر استری پھیری ۔شام کو تھک ہار کر وہ ٹیلیویژن کے سامنے بیٹھ گئی۔کچھ دیر بعد شہباز ،جو وہیں بیٹھا تھا کا فون بج اٹھا ،وہ اٹھ کرفون پر بات کرتے کرتے باہر کی طرف نکلا اور دروازے پر پہنچ کر بیگم کو کچھ اشارہ کیا ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد واپس آکر وہ بغیر کسی وجہ کے بیگم پر برسنا شروع ہو گیا ۔
دن بھر ٹی۔وی کے سامنے بیٹھی رہتی ہو ،اپنی کوئی عزت ہے نہیں تم کو ،میری عزت کا بھی خیال نہیں ہے۔۔۔۔۔۔
وہ نہ جانے کیا کیا بول رہا تھا۔بیگم چلا چلا کر پوچھتی رہی کہ میں نے کیا جرم کیا ہے ؟لیکن وہ آپے سے باہر ہو کر اسے ڈانٹتا رہا ۔بڑھتے بڑھتے بات اتنی بڑھ گئی کہ بیگم کی قوت برداشت ختم ہو گئی۔ اُس نے آو دیکھا نہ تائو اور آنکھوں سے اشک بہاتے ہوئے گھر چھوڑ کر میکے چلی گئی۔ شہباز ،جو سخت غصے میں تھا، نے اس کو روکا بھی نہیں ۔
’’ٹھیک ہے میری جان ۔۔۔۔۔۔ تم ماں کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا ،میں ساری چیزیں لے کر آئوں گا ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
شہباز سوچوں کی بھول بھلیوں میں کھویا ہوا تھا کہ اس کا ساتھی راجیو، فون پر باتیں کرتے ہوئے ،کمرے میں داخل ہو گیا ،جس کی باتیں سن کر اسے یاد آیا کہ اس کی ماں، جو بی ۔پی کی مریضہ ہے، کو دن میں کئی بار دوائی کھانی پڑتی ہے اور کبھی کبھی انسولین انجکشن بھی دینا پڑتا ہے اور بی ۔پی کی تشخیص بھی کرنی پڑتی ہے ۔یہ سب امور اس کی بیوی ہی انجام دیتی تھی جب کہ ضرورت پڑنے پر ماں کو ڈاکٹر کے پاس بھی وہی لے کر جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔ اسی اثنا میں دیوار پر لگی گھڑی نے دو بجنے کا سگنل دیا اور اسے یاد آیا کہ دو بجے تو بچے سکول سے واپس آتے ہیں ۔انہیں گھر میں کھانا کون بنا کے دے گا جب کہ انہوں نے صبح بھی کچھ نہیں کھا یا ہے ۔سوچتے سوچتے اس کے دل میں کانٹے سے چبھنے لگے اور آنکھیں بھر آئیں اور اُس نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ وہ باس کے پاس جا کر آدھے دن کی چھٹی لے گا ۔
’’ سر ۔۔۔۔۔۔ باس آپ کو بلا رہا ہے ‘‘۔
ابھی وہ باس کے پاس جانے کے لئے سوچ ہی رہا تھا کہ چپراسی کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی اوراپنا ریزہ ریزہ وجود لئے باس کے کیبن میں گیا۔ باس نے اسے کسی اہم فائل کے بارے میں پوچھا ،جو اُس نے مکمل نہیں کی تھی ۔
’’سر ۔۔۔وہ ۔۔۔ابھی ۔۔۔میں ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اسے کوئی جواب نہیں بن پایا اور نہ ہی اپنی کیفیت کو چھپا سکا ۔اس کی لا پروائی پر باس اس پر برس پڑا اور اس کی حالت غیر ہو گئی ،انتہائی شرمندگی کی حالت میں وہ باس کے کیبن سے واپس نکلا اور توجہ سے فائل کو مکمل کرنے میں جٹ گیا ۔دو گھنٹے کی سخت محنت کے بعد اس نے فائل مکمل کی اور جاکے باس کے سامنے رکھ دی ۔
’’ویری گڈ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
چند منٹ تک فائل کے سارے پنے دیکھنے کے بعد باس خوش ہو گیا اور اسے بیٹھنے کے لئے کہا ۔
’’ شہباز۔۔۔۔۔۔ کیا بات ہے ،تم کچھ پریشان لگ رہے ہو اور کام بھی ٹھیک سے نہیں کر پارہے ہو‘‘ ۔
’’سر ۔۔۔۔۔۔ پریشانی یہ ہے کہ میری بیوی گھر میں نہیں ہے ۔ماں کو دوائی کھلانی ہے ،بچوں کے لئے کھانا بنانا ہے ،اسی لئے ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
کہتے ہوئے شہباز کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
’’تمہاری بیوی کہاں گئی ہے ؟خیریت تو ہے ؟‘‘
’’ باس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا‘‘ ۔
’’ ہاں سر خیریت ہی ہے ،وہ میکے گئی ہے ‘‘۔
’’نہیں شہباز۔۔۔ تمہارا لہجہ بتا رہا ہے کہ کچھ گڑ بڑ ہے ،صاف صاف بتائو بات کیا ہے۔۔۔ ؟‘‘
باس نے انتہائی اپنائیت کے لہجے میں کہا ۔
شہباز نے پہلے چھپانا چاہا لیکن آخر باس کو سب کچھ صاف صاف بتا دیا ۔تو تو میں میں ہونے کی وجہ اس نے یہ بتائی کہ کل شام اسے ایک مہمان آیا تھا ۔وہ مہمان کا استقبال کرنے کے لئے باہر نکلا اور بیوی کو چائے بنانے کے لئے کہا ۔مہمان کچھ دیر بیٹھ کر واپس بھی نکلا اور وہ مزے سے ٹیلیویژن دیکھ رہی تھی ،جس پر مجھے سخت غصہ آیا اور نہ جانے میں نے اس کو کیا کیا سنایا ۔
’’ اچھا شہباز ۔۔۔یہ بتائو تمہارے گھر میں کھانا پکانے والا نوکر ہے۔۔۔؟‘‘
’’نہیں سر‘‘
’’ جھاڑو پونچھا کرنے والا ؟دھوبی ؟گھر کی چوکیداری کرنے والا ؟تمہارے بچوں کی پرورش اور بیمار ماں کا خیال رکھنے والا کوئی ہے ۔۔۔۔؟‘‘ اس بار شہباز نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
’’خاموش کیوں ہو ؟جواب دو ‘‘۔
’’ باس نے اسے قدرے جذباتی لہجے میں پوچھا ‘‘۔
’’ نہیں سر کوئی نہیں ہے‘‘ ۔
’’ شاباش ،پھر یہ سارے کام کون کرتا ہے؟ ‘‘
’’ وہی کرتی ہے سر‘‘ ۔
’’ پھر تم یہ کیسے بھول گئے کہ بغیرکسی تنخواہ کے ون مین آرمی کی طرح دن رات گھر کی ساری ذمہ داریاں وہی سنھبالتی ہے اور ایک معمولی بات کو لے کر تم نے اسے جھگڑا مول لیا ،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے تمہاری بات ٹھیک سے سنی ہی نہ ہو‘‘ ۔
’’ہاں سرــ۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ۔
شہباز نے انتہائی شرمندگی کے انداز میں کہا اورکچھ دیر بے بسی کی حالت میں سر کھجانے کے بعد جیب سے فون نکال کرتھر تھراتے ہاتھوں سے بیوی کا نمبر ملانے لگا۔
���
اجس بانڈی پورہ ،کشمیر
ای میل؛ [email protected]