۔ 1981، 1988اور2005میں بھی خشک سالی ہوئی تاہم آبی ذخائر خشک نہیں ہوئے
اشفاق سعید
سرینگر // رواں سال وادی کشمیر میں بدلتے موسمی حالات کی وجہ سے جہلم ، ولر اور دیگر آبی زخائر میں پانی کی سطح کم ہونے سے متعدد علاقوں میں پینے کے پانی کی قلت پیدا ہوئی ہے ۔جنوری میں اب تک 100فیصد اور گذشتہ سال دسمبر میں 79فیصد بارشوں کی کمی واقع ہوئی ہے جس سے گلیشر سکڑ جانے کے ساتھ ساتھ ان کے سامنے پانی کی جھلیں بن چکی ہیں۔ یہی نہیں پینے کے پانی کی قلت بھی پائی جا رہی ہے اور محکمہ جل شکتی نے 92ٹینکروں کے ذریعہ متاثرہ علاقوں میں پانی سپلائی کرنا شروع کر دیا ہے اور لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی صورتحال میں پانی کا زخیرہ کر کے رکھیں ۔محکمہ موسمیات کے ا عداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ سرینگر ان دنوں دہلی، چندی گڑھ، امرتسر اور لدھیانہ سے زیادہ گرم ہے۔ 13 جنوری کو سرینگر میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 15 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا۔
یہ ایک صدی کے دوران ریکارڈ کیا گیا چھٹا سب سے زیادہ درجہ حرارت ہے۔جبکہ سرینگر میں 23 جنوری 2003 کو 15.1 ڈگری سیلسیس، 9 جنوری 1976 کو 15.5 ڈگری سیلسیس، 31 جنوری 2001 کو 15.7 ڈگری سیلسیس، 25 جنوری 2010 کو 15.8 ڈگری سیلسیس اور 23جنوری1902 کو17.2ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔اسی طرح14 جنوری 2024 کو جموں شہر میں 2.5 ڈگری سیلسیس ریکارڈ کیا گیا جو 2017 کے بعد سب سے کم درجہ حرارت تھا۔پچھلے سال مارچ اور اپریل میں کشمیر میں مسلسل بارش ہوئی اور جون میں اچانک شدید گرمی کے درمیان خشک موسم شروع ہوا۔ کشمیر میں بالخصوص سرینگر میں پچھلے سال اگست میں 80 فیصد سے زیادہ بارش کی کمی ریکارڈ کی گئی ۔مسلسل خشک سالی کے نتیجے میں دریائے جہلم میں پانی کی سطح اب تک کی کم ترین سطح پر ریکارڈ کی گئی ہے۔ سنگم میں پانی کی سطح 0.75 فٹ ، عشم میں 0.86 فٹ درج کی گئی جبکہ جھیل ولر میں 20فٹ کی کمی درج ہوئی ہے اسی طرح دیگر ندی نالوں میں بھی پانی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل 2016میں وادی میں طویل مدت تک موسم خشک رہا اور اس دوران صرف 3ملی میٹر بارشیں ہوئی تھی۔ تاہم آبی ذخائر میں پانی کی سطح میں اس قدر کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔اعدادوشمار کے مطابق اس سے قبل 1981، 1988اور2005 میں بھی موسم خشک رہا تاہم اس دوران بھی آبائی ذخائر خشک ہوئے نہ جہلم کی سطح آب میں زیادہ کمی واقع ہوئی۔ ماہرین موسمیات کے مطابق آج ہی نہیں بلکہ اس سے قبل بھی موسم خشک رہا ہے۔ گذشتہ برس کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ وادی میں اکتوبر ، نومبر اور دسمبر کے مہینے میں 100ملی میٹر بارشیں ہوتی رہی ہیں،تاہم اس سال دسمبر 2023 میں بارشوں میں 79 فیصد کمی اور جنوری 2024 میں اب تک 100 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ محکمہ فلڈ کنٹرول کا کہنا ہے کہ ولر 60برسوں بعد اس طرح سوکھ رہا ہے۔محکمہ کے مطابق ولر میں پانی کی سطح میں 20 فٹ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنوری کے مہینے میں مسلسل خشک موسمی صوتحال کے چلتے گلیشر پگھل رہے ہیں ،اگرچہ ابھی تک 32فیصد گلیشر وں کے پگھل جانے کی تصدیق ماہرین کر رہے ہیں وہیں گلیشروں کے سامنے جھلیں بھی بن چکی ہیں جو کہ مسلسل خطرے کا باعث ہیں۔محکمہ جل شکتی کے چیف انجینئر سنجو ملہوترہ نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ہم لگاتا ر لوگوں کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ پانی کو ضائع کرنے کے بجائے اس کا معقول استعمال کریں ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت محکمہ کو جتنے پانی کی ضرورت ہے، وہ استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن ایسی صورتحال میں ہم لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں ،کہ وہ پانی کے کم استعمال کے ساتھ ساتھ اس کا ذخیرہ بھی کر یں کیونکہ کسی بھی وقت انہیں پانی کی پریشانی ہو سکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہم ندی نالوں سے ڈریجنگ کے ذریعے پانی نکال کرلوگوں کو استعمال کیلئے دیا جاتا ہے ۔