ہر سال کی طرح امسال بھی ماہِ ربیع الاول مسلمانان ِ عالم پرجلوہ فگن ہوا۔یہ ماہ اسلامی کیلنڈر میں ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اسی عظیم المرتبت ماہ میںعرب کی سرزمین پر آخری پیغمبر ومکمل رہنما حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ صلعم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ اس مناسبت سے ہر سال ہماری وادیٔ کشمیر میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں حضرت محمد صلعم پر سیرتی جلسے، سیرت کانفرنسیں، سیرتی کوئز اور دیگر دعوتی سرگرمیوں وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یہ پروگرام نہ صرف مساجد بلکہ سکولوں اور کالجوں میں بھی کئے جاتے ہیں۔ہماری وادی میں ماہ ربیع الاول میں عموماً اور 12تاریخ کو خصوصاً دینی مجالس کا اہتمام بڑے زور وشور سے کیا جاتا ہے،سرکاری سطح پر اس دن کے احترام میں تعطیل کی جاتی ہے۔ بہر صورت تاریخ انسانیت میں اس ولادت باسعادت کا کوئی ثانی ہے نہ ہوگا ۔ ماہ ربیع الاول کے اس مبارک دن جب پیغمبر آخر الزماں صلعم کی ولادت باسعادت ہوئی تو ہر طرف بجھے ہوئے چراغ روشن ہو گئے، تاریکی سے بھری زمین پر روشنی ہی روشنی پھیلنے لگی، گویا پوری دنیا میں ہدایت و ترقی و عروج کا جوچراغ کفر وشرک، ظلم وفساد سے بجھ گیا تھا، آپ صلعم کی ولادت باسعادت سے وہ چراغ ایسا روشن ترین ہوا کہ آج تک اپنی روشنی سے انسانیت کو منور کرتا آرہا ہے اور تاقیام قیامت یہ سلسلہ برقرار رہے گا۔تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سرزمین عرب جہاں ہر طرح کی بدی اور برائی کا رواج تھا ، یہاں تک کہ لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جاتا تھا، بات بات پر قبائل کے مابین جنگیں چھڑ جاتی تھیں،ایسی جنگ جن پر کبھی کبھی آدھی آدھی صدیاں بھی لگ جاتی تھی۔ بقول شاعر ؎
وہ قبیلہ بقر اور تغلب کی لڑائی
صدی جس پہ انہوں نے آدھی گنوائی
اسی سنگلاخ سر زمین میں اسلام کا اجالا کر نے والا اللہ کا آخری پیغمبر ؐجلوہ افروز ہو ئے ۔
سید حامد علی مرحوم اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں: ’’جس سوسائٹی اور جس قوم کو آپ صلعم نے سب سے پہلے یہ تعلیم دی وہ اس لحاظ سے بہت گئی گزری تھی، چھوٹی سی قوم ہونے کے باوجود اس میں سینکڑوں قبیلے تھے۔ پھر ہر قبیلے کے مختلف ٹکڑے تھے اور ہر ٹکڑے میں مختلف خاندان اور کنبے تھے اور ان میں سے ہر ایک نسلی غرور کا بری طرح مارا ہوا تھا، اسی بنا پر وہ آپس میں دست وگریباں رہتے تھے اور کسی طرح بھی ان کو متحد نہ کیا جاسکتا تھا، لیکن نبی کریم صلعم کی سیرت پاک اور تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ چند سال کے اندر وہ بھائی بھائی بن گئے اور جہاں جہاں یہ پیغام پہنچا اور اسے دل و جان سے تسلیم کیا گیا، وہاں تمام تفرقے ختم ہو گئے اور ایک عالمگیر برادری اور ہمہ گیر اخوت وجود میں آگئی جس کا ہر فرد دوسرے فرد سے اسی طرح وابستہ تھا جس طرح ایک جسم کے اعضا ایک دوسرے سے‘‘۔
اسی سرزمین پر جب محمد مصطفی صلعم کے قدم مبارک پڑے تو پہلا کام جو ہوا وہ آپ صلعم کے چچا ابو لہب کے ذریعے سے اس کی ایک لونڈی جس نے آپصلعم کی ولادت باسعادت کی خوش خبری سنائی تھی، کو ابولہب نے خوشی کے مارے اسی وقت آزاد کر دیا۔ اس طرح آپ صلعم کے قدم مبارک پڑتے ہی اس سرزمین کی غلامی کی زنجیریں ٹوٹنی شروع ہو گئیں۔ آپ صلعم کی آمد بندوں کو بندوں کی غلامی سے آزاد کرنے کا سبب بنا، اور پھر نبوت عطا ہونے کے بعد آپ صلعم کا اہم مشن ہی یہ قرار پایا کہ ’’بندوں کو بندوں کی غلامی سے آزاد کرا کے خدا کی غلامی میں لایا جائے‘‘۔ اس بارے میں صاحب تفہیم القرآن سید مودودی ؒایک جگہ لکھتے ہیں:
’’فتنہ کی اصل جڑ اور فساد کا اصل سرچشمہ انسان پر انسان کی خدائی (غلامی) ہے۔ خواہ وہ بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ، اسی سے خرابی کی ابتداء ہوئی اور اسی سے آج بھی زہریلے چشمے پھوٹ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو خیر انسان کی فطرت کے سارے ہی راز جانتا ہے مگر اب تو ہزارہا برس کے تجربے سے خود ہم پر بھی یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہو چکی ہے کہ انسان کسی نہ کسی کو الٰہ اور رب مانے بغیررہ ہی نہیں سکتا، گویا کہ اس کی زندگی محال ہے، اگر کوئی اس کا رب اور الٰہ نہ ہو۔ اگر اللہ کو نہ مانے، تب بھی اسے الٰہ اور رب سے چھٹکارا نہیں ہے بلکہ اس صورت میں بہت سے الٰہ اور رب اس کی گردن پر سوار ہو جائیں گے‘‘ … … ’’یہی وہ چیز ہے جو انسان کے سارے مصائب، اس کی ساری تباہیوں، اس کی تمام محرومیوں کی اصل جڑ ہے۔ یہی اس کی ترقی میں اصلی رکاوٹ ہے، یہی وہ روگ ہے جو اس کے اخلاق اور اس کی روحانیت کو، اس کی علمی وفکری قوتوں کو، اس کے تمدن کو اور اس کی معاشرت کو، اس کی سیاست اور اس کی معیشت کو ، قصہ مختصر اس کی انسانیت کو تب دق کی طرح کھا گیا ہے۔ قدیم زمانہ سے کھارہا ہے اور آج تک کھائے چلا جارہا ہے۔ اس روگ کا علاج بجز اس کے کچھ ہے ہی نہیں کہ انسان سارے ارباب اور خدائوں کا انکار کر کے صرف اللہ کو اپنا الٰہ اور صرف رب العالمین کو اپنا رب قرار دے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ اس کی نجات کے لیے نہیں ہے، کیوں کہ ملحد اور دہریہ بن کر بھی وہ الٰہوں اور ارباب سے چھٹکارا نہیں پاسکتا‘‘۔
اسی لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ جہاں ایک طرف آپ صلعم اپنی دعوت آزاد لوگوں تک پہنچا رہے تھے وہیں دوسری طرف یہ پیغام حیات اُس وقت کے غلام طبقہ تک بھی پہنچ رہا تھا، بلکہ صفِ اوّل میں ایک طرف اگر دعوت قبول کرنے والی آپ صلعم کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہؓ الکبریٰ تھیں، وہیں دوسری جانب غلاموں میں حضرت زیدؓبھی تھے۔ ایک طرف اگرحضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت علیؓ تھے تو دوسری طرف حضرت بلالؓ بھی تھے۔ غرض یہ کہ آپ صلعم کی نبوت کا اہم مقصد ہی یہ تھا کہ بندوں کو بندوں کی غلامی سے نجات دلائی جائے۔ دین اسلام جس کے داعی اور پیام بر جناب حضرت محمد صلعم تھے، کے نزدیک آزادی کا تصور ہی ایک وسیع المعنیٰ تصور ہے۔ بقول داعیٔ دین ومعروف قلم کار مرحوم نعیم صدیقی :
’’بحیثیت مسلمان ہمارا (مسلمانوں کا) تصور ِآزادی ساری اقوا م سے نرالا ہے۔ ہم اپنے آپ کو اس وقت تک آزاد نہیں سمجھ سکتے جب تک ہم اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت واطاعت کے لیے انفرادی اور اجتماعی حیثیت میں غیر الٰہی ضابطہ وقانون سے آزاد نہ ہو جائیں…چاہے وہ ضابطہ قانون سمندر پار سے آیا ہو یا اپنے دیس کے لوگوں کا ایجاد کردہ ہو۔ جب تک ہمارے اوپر غیر اسلامی دستور، غیر اسلامی قانون، غیر اسلامی نظامِ سیاست و معیشت اور غیر اسلامی تہذیب وتمدن مسلط رہے، اس وقت تک ہماری غلامی کی زنجیریں نہیں کٹتیں۔ ہمارے لیے صبحِ آزادی اس وقت طلوع ہوتی ہے جب ہم اپنی پوری زندگی کو کتاب وسنت کے سانچے میں ڈھالنے پر قادر ہو جائیں اور اس مدعا کو حاصل کرنے میں نہ غیروں کی طرف سے کوئی رکاوٹ باقی رہے، نہ اپنوں کی طرف سے کوئی مزاحمت‘‘۔
مذکورہ بالا اقتباس کے مطالعہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اسلام کے نزدیک آزادی کا تصور کیا ہے۔ آخری پیغمبر حضرت رسول اکرم صلعم اسی آزادی کے علم بردار تھے۔ پہلا پیغام جو کوہِ صفا پر آپ صلعم نے انسانیت کے سامنے رکھا وہ اسی آزادی کا تصور دلاتا ہے: ’’کہو اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، کامیاب ہو جائو گے‘‘۔
مطلب یہ کہ اپنے آپ کو جو تم نے غلامی میں جکڑ لیا ہے اس سے پورے کے پورے نکل کر صرف اللہ کی غلامی اختیار کر لو’’ادخلوا فی السلم کافہ‘‘( دین میں پورے کے پورے داخل ہوجاؤ) ہر طرح کی غلامیوں سے نکل کر اللہ کی غلامی وبندگی میں آجائو، کیوں کہ اللہ نے تمہیں اس دنیا میں دوسروں کی غلامی کے لئے نہیں، بلکہ صرف اپنی غلامی اختیار کرنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔( ہم نے نہیں بنا ئے جن اور انسان مگر اپنی عبادت کے لئے ) اس تصور آزادی کو عام کرنے کے لیے حضرت رسول اکرم صلعم کو مبعوث کیا گیا۔ ماہ ربیع الاول کے پورے ماہ آپ صلعم کے پیغام کو عام کرنے کے لیے یہ مجالس، یہ تقاریر، یہ سیرت کانفرنسیں اور یہ ذکر واذکار کی جومجلسیں منعقد کی جاتی ہیں۔اس پر اللہ کا شکر ادا کیا جانا چاہیے، کیونکہ دور حاضر پھر اسی جاہلیت و فتنہ پروری کی راہ پر چل پڑا ہے جس پر آج سے ساڑھے چودہ سو برس قبل عرب کے لوگ چل رہے تھے، جو ایک غلامی سے نکل کر اَن گنت غلامیوں میں پھنسے ہوئے تھے، جس کی وجہ سے عرب ہی نہیں بلکہ پوری کائنات ایسی دلدل میں پھنس چکی تھی کہ دور دور بچنے کے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے تھے۔ اسی تاریخ کو دور حاضر میں پھر سے مختلف رنگوں ، ازموں، فلسفوںا ور استحصالوں کے روپ میں شد ومد سے دہرایا جارہا ہے۔ اسلام جو ہمہ گیرآزادی کا پیغام ہے، کو چھوڑ کر ہم آج بہت سارے اِزموں میں اپنی قسمت آزمائی کر کے قدم قدم پر ٹھوکریںکھا رہے ہیں۔ ایک طرف مغربیت و مشرقیت اور دوسری طرف ابلیسیت ہے، ایک طرف سیکولرازم، سیکولر ڈیماکریسی کا ازم ہے اور دوسری طرف سوشلزم و غیر اسلامی طرزِ حکمرانی ہے۔ بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے نام پر آج دنیا میںبہت سارے ممالک دنیاکے نقشے پرپائے جاتے ہیں مگر آج تک ان ممالک میں اسلام کو حقیقی معنی میں اپنایا گیا نہ اسے ایک ضابطۂ حیات ماننے والوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا گیا ۔ ان ممالک کے لوگ اپنے آپ کو ’’آزاد ‘‘سمجھتے ہیں،مگر حقیقتاً ان کا آزادی کے معنی سے اسلامی حریت کادور دور بھی کوئی واسطہ نہیں۔ ہمارے ہاں بھی لوگ آزادی اور ’’یہاں کیا چلے گا‘‘ کی باتیں کرتے دکھائی دیتے رہے ہیں، مگر اکثر لوگ اسلام کے مشروط یہ ایمان واطاعت الہٰیا اورپیروی ٔرسول صلعم سے عبارت تصور آزادی سے ہی نابلد ہیں۔ آزادی ایک نعمت ہے اس کا حصول بھی عبادت ہے ،لیکن جب بے قیدآزادی (یانفس کی غلامی )کی راہیں تلاش کی جارہی ہوں تو اس کا کیا معنی ہے؟ پھر تو ہم صرف رسمی طور اور سرکاری رجسٹروں میں درج مسلمانوں کے علاوہ کچھ اور نہیں رہتے۔ ہمارا اصل الاصول اگر یہ نہ ہو ع
محمد ؐ کی غلامی ہے سند آزاد ہو نے کی
تو ربیع الاول کے ماہ میں یہ سیرتی مجالس کا مفہوم گم گشتہ ہو جا تا ہے۔ کیونکہ سیرت طیبہ صلعم کا پیغام کچھ اور ہو اور ہماری انفرادی واجتماعی کوششیں دوسری اور ہو رہی ہوں، یہ دوغال پن ہے کو اللہ کو منظور ہے نہ قبول ۔اس تناظر میںعراق کے عالم امام خالصی الکبیراپنی ایک تقریر جو انہوں نے 12ربیع الاول کے موقع پر کاظمیہ کے جامعہ مدین العلم میں کی تھی، فرماتے ہیں:
’’انسانیت…جو اِس وقت ہلاکت اور تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے کا مداوا صرف اسلامی نظامِ حیات کے اندر ہے لیکن انسان کی عجب حالت ہے کہ وہ دوسری ہر دوا کے پیچھے لپک رہا ہے لیکن اصل دوا کی طرف وہ آنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں پاتا۔ مسلمانوں کو اگر اس پسماندگی کے گڑھے سے کوئی نسخہ نکال سکتا ہے تو وہ اسلام اور صرف اسلام ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کا ایک گروہ جو مغرب کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر چکا ہے، یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ راکٹ اور مصنوعی سیاروں اور ایٹم و ہائیڈروجن کے بغیر کیونکر غلبہ حاصل ہو سکتا ہے مگر ہم اس گروہ کے علی الرغم اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ اصل طاقت ’’فاطر السمٰوٰت والارض‘‘ کی طاقت ہے‘‘۔
اسی لیے آج ہم مسلمان ’’ آدھا تیرا آدھا میرا‘‘والا معاملہ شاید اختیار کرنا چاہتے ہیں جس کے متعلق سیرت رسول اکرم صلعم میں صاف واضح ہے کہ جب رسول اکرم صلعم کے سامنے کفار مکہ کی طرف سے یہ تجویز رکھی گئی کہ آپ خدا کی غلامی بھی کریں اور کبھی کبھی ہمارے من پسند معبودوں کی بھی مانیں۔ اس پر حضرت رسول اکرم صلعم نے فرمایا کہ اگر میرے ایک ہاتھ میں آپ ماہتاب اور دوسرے میں آفتاب رکھیں گے تب بھی میں اپنی دعوت سے نہیں ہٹوں گا۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلعم کے نام مبارک پر سیرتی مجالس وغیرہ کا بصد شوق اہتمام کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ آئو پیغام آزادی کو تھام کر ساری غلامیوں سے آزاد ہو جائو اور محمد صلعم کی غلامی میں آجاؤ۔ اس ماہ ربیع الاول میں اگر اس حیثیت سے ان مجالس وغیرہ کا اہتمام ہوتا ہے تو یہ ہمارے لئے ہی نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے فلاح وبھلائی کا فارمولہ ہے کیوں کہ تاریخ گواہ ہے کہ جب جب انسان نے سارے طاغوتوں کی غلامیوں سے نکل کر ایک غلامی اختیار کی تو پوری دنیا میں امن وشانتی کا ماحول پیدا ہواہے۔ اس لحاظ سے پیغام سیرت صلعم کو عام کرنا دور حاضر کے انسان کی ضرورت ہے۔ اس بارے میں ایک عالم دین ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’رسول اکرم صلعم کی زندگی کو اگر دو لفظوں میں سمیٹا جائے تو اسے ’’محورِ انسانیت‘‘ کے نام سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، دنیا آج کی ہو یا ہزاروں سال بعد کی وہ جب بھی حقیقی انسانیت کی تلاش کرے گی تو اسے مجبور ہوکر حضور اکرم صلعم ہی کی طرف جھکنا پڑے گا اور جتنا جتنا وہ اس پاک ہستی کی طرف جھکتی جائے گی اتنا ہی اس کی زندگی میں سکون، اطمینان، یقین، اعتماد، نکھار اورحُسن پیدا ہوتا جائے گا اور اگر اس پاک زندگی کو پھیلایا جائے تو دنیا کتنا ہی کچھ بیان کرتی چلی جائے، موضوعات اور ان کے تنوعات کم ہونے میں نہیں آئیں گے۔ جس طرح تاریکی میں ہر انسان روشنی کا محتاج ہے، اسی طرح یہ دور اور اس دور کا ہر انسان اس پاک ہستی کا ہر وقت محتاج رہے گا۔ اس دین کا جسے قیامت تک کارفرما رہنا ہے، یہی تقاضا بھی ہونا چاہیے کہ اس کو پیش کرنے والی ہستی کی تعلیمات ہر زمانے میں روشن اور تابندہ رہیں‘‘۔
اب یہ ہماری سوچ پر ہے کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟ غلامی یا حقیقی آزادی…؟
٭٭٭٭٭٭