بشارت بشیرؔ
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’ ’ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ اس کا حج کرے اور جو کوئی اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ‘‘[آل عمران :70]۔اس حکم ربانی کی تعمیل میں وارفتگان شوق اور فرزندان اسلام ہر سال دنیا کے ہر گوشۂ زمین سے رخت سفر باندھ کے حجاز کی مبارک سرزمین کا رخ کرلیتے ہیں ،دل سینوں میں رقصاں ہوتے ہیں اور جس قدر کعبۃ اللہ نزدیک آتا ہے شوق اپنی انتہا ئوں کو چھو لیتا ہے وہ چاہتا ہے کہ دن رات سمٹ جائیں اور وہ اُڑ کر حرم مبارک کی فضائوں میں قدم رنجہ ہو، اللہ کی نگاہ رحمت اُس پر ہو اور آتش دوزخ سے اُسے نجات کا پروانۂ انبساط ملے۔ ہاں اللہ کا یہ آزاد وآبادگھر جس کی زیات کی تڑپ لئے اسلامیان عالم ہر زمین وزمن میں روتے بلکتے ہیں اور اس ارض مبارک میںپہنچنے کے لئے اُن کے قلوب ہر آن بے قرار نظر آتے ہیں۔جی ہاں !خانہ کعبہ رب جلیل کا پروقار گھر انسان گھنٹوں اسے دیکھتا رہتا ہے اور پھر اپنی قسمت پر بھی رشک کرنے لگتا ہے کہ بایں گناہ گاری وصد شرمساری اللہ تعالیٰ نے اس پاکیزہ گھر کی زیارت کی آرزو پوری کرنے کے سامان کرلئے وہ بصدعجز ونیاز جیسے یوں کہتا ہے۔ ؎
کہاں میں اور کہاں یہ نگہت گل
میرے مولا یہ تیری مہربانی
ہر آن جب عازم کے شوق ووارفتگی میں اضافہ ہوتا ہے تو وہ احرام کی شکل میں سفید لباس زیب تن کئے ہوئے میدان عرفات کی جانب رواں دواں ہوتا ہے تو اہل خانہ ، احباب واقارب اور مال ومنال سے دور اُس کے سر میں یہی دُھن سوار ہوتی ہے کہ کب اس مبارک خطۂ ارض میں پہنچ جائے اور اللہ تعالیٰ کی برسنے والی رحمتوں میں غوطہ زن ہو۔ اس کی آنکھوں سے آنسوئوں کی بہنے والی جھڑیاں اُس کے اندرون کا پتہ دیتی ہیں ، وہ اپنے کردہ گناہوں سے سب سے زیادہ آگاہ ہوتا ہے، ساری زندگی کے عصیاں و نسیاں اُس کی آنکھوں میں پھر جاتے ہیں۔ گو شرمندگی سے سراُٹھانہیں پاتا لیکن مولا نے بلایا ہے اس لئے آس بندھی ہے کہ بس میری طلب ِ معافی کی دیر ہے تو پروانہ ٔ نجات مل کے رہ جائے گا ۔ اللہ کے آخری رسولؐ کا ارشاد ہے کہ ’’ حج تو عرفہ ہے یعنی9؍ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد عرفات کے میدان میں حاضر ہونے کا نام حج ہے۔ جو کوئی اس معین تاریخ ومتعین وقت میں حاضر عرفات نہ ہوسکا ،اس کا تو حج ہوا ہی نہیں، چاہے اس نے سفر حج میں لاکھوں کروڑوں خرچ کئے ہوں۔ امیر ہو یا غریب، شاہ ہو یا گدا، عربی ہو یا عجمی سب کے لئے ایک ہی قاعدہ اورایک ہی قانون، ایک ہی میزان اس تعلق سے فرمان جاری ہوچکا ہے کہ حاضر نہ ہوسکا تو کوئی فدیہ ودم وکفارہ نہیں ، کوئی ازالہ نہیں یعنی وقوف ِعرفات نہیں تو کچھ بھی نہیں ۔ اس وقوف کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگائیے کہ اس سفر شوق کے دوران ایسے بھی لوگ ہوا کرتے ہیں جو یہاں کسی بیماری کے شکار ہوئے تو شدتِ مرض کی وجہ سے ہسپتال میں اُنہیں داخل کرنا پڑا ۔ اُن میں سے بہت سارے ایسے ہوا کرتے ہیں جنہیں میزبان ملک کا محکمہ صحت ہیلی کاپٹروں، ایمبولنسیزاور دیگر ذرائع سے حدود عرفات میں انتہائی احتیاط سے پہنچا دیتا ہے اور اکثر کی حالت اس قدر نازک ہوتی ہے کہ آکسیجن لگی ہوتی ہے۔ یہ سب اس لئے کہ جو عرفات میںحاضر ہوا، حج اُسی کا ہوا اور جو اس فیض سے محروم رہا، محروم ہی رہا ‘‘۔ جی ہاں! اصل اہمیت یہاں حاضری کی ہوتی ہے ظہر اور عصر ملا کر پڑھ لیتے ہیںکیوں کہ یہی احکام ہیں اور احکام سے سرتابی نہیں کی جاسکتی ۔ مغرب اور عشاء وہاں نہیں مزدلفہ میں ادا کی جاتی ہے۔ کیونکہ یہی ارشاد ہے ،عرفات کے سارے مناظر دیدنی ہوتے ہیں ۔لاکھوں لوگ ایستادہ ، بیٹھے ہوئے جس بھی حال میںہوں زار و قطار روتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ مولا کی دہلیز پر نامہ ٔ سیاہ لے کر اپنی خطائوں اور گناہوں پر نادم پیکر ِ عجز وانکسار بن کے معافی ومغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں۔عفو کے متلاشی اور نظر کرم کے اُمیدوار ! آوازیں رندھ جاتی ہیںاور کمال تو یہ ہے کہ جو سکون یہاں رونے اور اشکبار ہونے میںہے، وہ دنیا جہاں کے مال ومنال اور آرام وراحت میں نہیں ۔ہاں ٗ بندہ پکار اُٹھتا ہے کہ مولا اپنا سب کچھ چھوڑ کر آیا ہوں۔اپنے پروٹو کول پر لات مار کر آیا ہوں، اپنے سارے جرائم مجھے قبول ہیں ،اقبال کرتا ہوں کوئی مددگار ومعین تیرے سوا نہیں اور بے اختیار روتا جاتا ہے۔ہاں جس قدر روتا ہے قلب اس قدر راحت وسکنیت محسوس کرتا ہے۔حق تو یہ ہے کہ اس خطہ ٔ زمین میںکوہ ودمن کے درمیان بندے کو یہ احسا س ہوتا ہے کہ اس کی ربّ سے ملاقات ہورہی ہے۔ جب ہی تو صاف طور اُسے اپنی بے چینی اور بے قراری کے دور ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ انسان اصل میں روحانی وجود ہے اگر چہ جسم بھی ساتھ لگا ہے اور جب انسانی داعی اجل کو لبیک کہتا ہے تو گویا ہوتا ہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہم تو اللہ کے لئے ہی ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں اور یہی پیام قرآنی زندگی کی آخری سانسوں کے اخراج کے وقت مؤمنین کو پہنچایا جاتا ہے ۔ یعنی اُنہیں خوشخبری دی جاتی ہے کہ اے نفس مطمعنہ آجا! اپنے رب کی جانب راضی ومرضیہ میرے بندوں میںداخل ہوجا اور میری جنت میں چلے آ! خاک کے پتلے کو پیوند خاک کیا جاتا ہے اصل متاع تو روح ہے جو رخصت ہوتی ہے۔
ہاں بات اجتماع عرفات کی ہورہی ہے زائر احرام باندھے ہوتا ہے تو اسے میدان حشر کی یاد آتی ہے۔ احرام کی سفید چادر یں کفن محسوس ہوتی ہیں۔ اُسے یوم حشر میں اعمال کے حوالہ سے باز پرس کے مناظر یاد آتے ہیں ۔ اُس کا وجود لرزہ بداندام ہوتا ہے ، اس کی خطاکاریاں اُس کے اندرون میںارتعاش پیدا کردیتی ہیں۔ خوف کی لہریں اُسے ہلا دیتی ہیں اُس کارُواں رُواں کانپ اُٹھتا ہے وہ دل کی گہرائیوں سے پکار اُٹھتا ہے کہ اے میرے رب! میں تیرے حضور توبہ کرتے ہوئے حاضرہوں ،تیری چوکھٹ پر تیری درگاہ میں ا ورتیری دہلیز پر۔ بس تیری نظر کرم کا طلب گار ہوں ۔ لَبَّیْکَ اللَّہُمَّ لَبَّیْکَ، لَبَّیْکَ لاَ شَرِیکَ لَکَ لَبَّیْکَ، إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَۃَ، لَکَ وَالْمُلْکَ، لاَ شَرِیکَ لَکَ،ہاں قیامت اور احوال قیامت کی یاد یہاں وجود کو ہلا دیتی ہے۔ ہاں وہی دن’’ اس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘۔[ الشعراء:88,89]
جی ہاں! قلب سلیم وہ ہے جو شرک وگناہ کی آلودگیوں سے پاک ہو۔ بدعات سے دور کا واسطہ جسے نہ ہواور نبی رحمت ؐ کی سنتوں پر مطمعن بھی ہو اور اُن پر عمل پیرا بھی ہو ۔ لاالہ الاللہ کی گواہی بھی دیتا ہو اور عملاً بس اللہ کو ہی مددگار وسطان جانتا ہو ۔ اس کے لاشریک ہونے میں ذرہ برابر شائبہ نہ ہو۔
یہ عرفات ہی ہے جس کے بارے میںموطا امام مالک میں ایک مرسل حدیث یوں آتی ہے کہ شیطان یوم عرفہ سے زیادہ کسی بھی دن اتناذلیل و حقیر وغضب ناک نہیں ہوتا جب وہ اللہ کی رحمت کو اُترتے اور بڑے بڑے گناہوں کو معاف ہوتے ہوئے دیکھ لیتا ہے۔[مؤطا] یہ شاید اس لئے کہ جب کوئی اپنے کسی مقصد میںناکام نامراد ہوتا ہے تو مایوس ہو کے بیٹھ جاتا ہے تو بڑے رنج سخت تکلیف اور بہت کرب کا شکار ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ اپنے آرام کو تج کر اور مال ومنال کو صرف نظر کرکے جب اللہ کی بندگی میںایک ساتھ کھڑے ہوں ۔گڑگڑا کر دعائیں مانگیں شیطان رجیم سے پناہ کے خواستگار ہوں اپنی زندگیوں کو پاکیزہ بنانے کا عہد کریں ،تو شیطان رو سیاہ نہ ہوگاتو اور کیا ہوگا ۔ اس لئے عرفات کا پیغام ہی تو یہی ہے کہ لمبی مسافتیں طے کرکے آئے ہو ۔ پاکیزہ ہوکے جارہے ہو۔ اسی لئے سکینت وراحت تمہیں میسر آتی ہے۔ اسے برقرار رکھنا ہے تو شیطان سے دور ی بناکے رکھنی ہے۔ اس کے وار سے ہر آں خود کو بچا کے رکھنا ہوگا ۔حاجی کے لئے لازم ہوگا کہ گھر جاکر اس بات کا ادارک کرے کہ ابلیس جیسے دشمن کی ظاہری وباطنی مداخلت گاہوں سے آگاہ ہو۔ یاد رہے کہ وہ زاہد کوزہد کے طریقے سے عالم پر علم کے دروازے سے اور جاہل پر جہل کے راستے سے حملہ زن ہوتا ہے اور یوں اپنے ہدف کو پورا کرلیتا ہے۔چند اُس کے دائو ملاحظہ ہوں ۔مسلمانوں کے مابین تنازعات پیدا کرنا اس کے محبوب مشاغل میںہے۔ بدگمانیاں پھیلا کر بغض نفر ت و حسد کی آگ بھڑ کاتا ہے۔ بامقصد اور خیر کے امور کی انجام دہی کے حوالہ سے کہتا ہے کوئی اور کام کریہ بعد میں کر لیتے ہیں۔تکبر وغرور پیدا کردیتا ہے یہ خود اُس کا اپنا روگ ہے۔ جس کی باعث اُسے پھٹکار ملی ہے ، نیکی کرنے والو ں کوشکوک میںمبتلا کردیتا ہے تاکہ وہ حسنات کرنے سے باز رہیں ٗ صدقہ کرانے والوں کو ڈراتا ہے ۔ فقیر ہو جائو گے کیا ساری دنیا کی غربت مٹانے کا ٹھیکہ تم نے ہی لیا ہے ؟ نظر بازی ابلیس کے تیروں میںسے ایک خطرناک تیر ہے ۔مومن کو اس مرض میںمبتلا کرنے کے جتن کرلیتا ہے ، ذخیرہ اندوزی ، ملاوٹ ،حق تلفی ، سیاہ کاریوں ، نفاق کذب عدل کشی اوراحسان فراموشی کرنے پر یہ کہہ کر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ فی الحال کرلے اور لذت ومال بٹورلے ابھی کیا ہوا آئندہ توبہ کرلو گے تو گناہ دُھل جائیں گے ۔ حالانکہ کسی کو نہیںپتہ کہ کب زندگی کی ڈور کہاں کٹ جائے گی۔ اس لئے شیطانی دائوں کو سمجھ کر الٰہی حدود میںرہ کر زندگی گذارنے کا عہد کریں ۔ یہی عرفات کا پیغام سبھی عرفاتیوں، عازمین حج اور اہل ایمان کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ شیطانی حملوں سے محفوظ ومامون رکھے اور حجاج کرام کی محنت وسعی کو قبول فرما کر ہم سبھوں کے دامن مراد بھرے ۔ آمین
رابطہ۔7006055300