یو این آئی
نئی دہلی//وقف ترمیمی قانون2025 کے خلاف داخل عرضیوں مسلسل تیسرے دن بحث جاری رہی، جس کے دوران جمعیت علما ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے مرکزی سرکار کی نمائندگی کرنے والے سالیسٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا کی بحث کا جواب دیا اور کہا کہ مرکزی سرکار یہ موقف کہ وقف اسلام کا بنیادی جز نہیں ہے سراسر غلط ہے۔وقف اسلام کے بنیادی جز میں سے ایک اہم جز ہے، اسلام کے بغیر وقف کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ وقف اللہ کے نام ہوتا ہے اور یہ مستقل ہوتا ہے، وقف ایک طرح کی چیریٹی ہے جو اسلام کا بنیاد ی جز ہے۔وقف صرف اللہ کے لیئے ہوتا ہے جسے ایک بار کردینے کے بعد اسے واپس نہیں لیا جاسکتا ہے۔ چریٹی پبلک کے لیئے بھی ہوسکتی ہے لیکن وقف خالص اللہ کے لیئے ہوتا ہے۔ کپل سبل نے قانون پر عبوری اسٹے کے تعلق سے کہا کہ، ماضی قریب میں سپریم کورٹ نے مختلف قوانین پر عبوری اسٹے دیا تھا لہذا آج سالیسٹر جنرل کا یہ کہنا کہ عدالت عبوری اسٹے نہیں دے سکتی مناسب نہیں ہے۔عدالت تمام پہلوں پر غور کرنے کے بعد موجودہ حالات اور مسلمانوں میں پھیلی ہوئی بے چینی کے مدنظر اس متنازعہ قانون پر اسٹے دے کر انصاف کرسکتی ہے۔سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے عدالت کو مزید بتایا کہ اوقاف کے سروے کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے لیکن کئی دہائی گذر جانے کے بعد بھی سروے نہیں ہوا، وقف پراپرٹی کا سروے نہیں ہونے کا ذمہ دار متولی یا مسلمان نہیں ہے، لہذا سروے کے نام پر وقف املاک پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔ گجرات اور اتراکھنڈ میں ایک بھی وقف املاک کا سروے نہیں ہوا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہاں اوقاف کی زمینیں نہیں ہیں۔وقف ترمیمی قانون بنا کر ریاست کی ناکامی کی سزا پوری مسلم قوم کو دی جارہی ہے۔ وقف بائی یوزر کو صرف اس لیئے ختم نہیں کیا جاسکتا کہ یہ رجسٹرڈ نہیں ہے۔ماضی میں سپریم کورٹ نے وقف بائے یوزر کو تسلیم کیا ہے۔ کپل سبل نے مزید کہاکہ وقف پراپرٹی پر لمیٹیشن ایکٹ نافذ نہیں ہوتا ہے لہذا لمیٹیشن کی بات کرنافضول ہے۔ شیڈول ٹرائب علاقوں میں وقف کرنے کی جو پابندی کی عائد کی جارہی ہے یہ مذہبی معاملات میں مداخلت ہے۔قبائلی علاقوں کے لوگ بھی اسلام کومانتے ہیں اور انہیں پورا حق ہے اپنے مذہبی امورکو انجام دینے کا۔وقف کرنے سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا ہے، تازہ ترمیمات ان علاقوں میں وقف کرنے سے روکتی ہیں جو غیر آئینی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ دفعہ 3ڈی کے مطابق محکمہ آثار قدیمہ کی عمارتوں پر متولی کے ہونے کی وجہ سے محکمہ آثار قدیمہ انتظامی امور ا نجام نہیں دے پارہی ہے لہذا حکومت اس کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتی ہے، حکومت کا یہ اقدام وقف املاک کو اپنے قبضہ میں لینے جیسا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامی امور کے تعلق سے عدالت رہنمایانہ اصول مرتب کرسکتی لیکن حکومت اس کی ملکیت تبدیل نہیں کی جاسکتی ہے۔چیف جسٹس نے دلائل سننے کے بعد کہا کہ وہ اس تعلق سے جائزہ لیں گے۔کپل سبل کی بحث کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے جوابی بحث کی اور کہا کہ وقف اسلام کا حصہ ہے، جے پی سی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے، انتظامی امور کے نام پر ضابطہ بنانا عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کردے گا۔ ڈاکٹر ابھیشک منو سنگھوی نے بھی جوابی بحث کی اور عدالت سے وقف ترمیمات پر عبوری اسٹے دینے کی گذارش کی۔