انسان واقعی کائنات کی سب سے پیچیدہ اور شعور رکھنے والی مخلوق ہے، مگر اس پیچیدگی کے ساتھ ایک بڑی ذمّہ داری بھی آتی ہے،یہ جاننے اور سمجھنے کی کہ ہم یہاں کیوں ہیں اور ہمیں اس زندگی کو کیسے گزارنا ہے۔ سائنسی تحقیق اور فلکیاتی کھوج ایک نہ ختم ہونے والا سفر ہے، لیکن اس سفر کا سب سے بڑا سبق شاید یہی ہے کہ جو زندگی ہمیں ملی ہے، وہ کتنی نایاب، کتنی حسین اور کتنی اہم ہے۔ فطرت بھی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہر فرد کی اہمیت ہے اور ہر فرد کی کوشش ایک بڑے نظام کا حصّہ ہےاور زندگی کی یہی ترتیب اور تنظیم اس کے انمول ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔اسی طرح وقت ایک ایسی جہت ہے جو کسی کے لیے نہیں رُکتی، کسی کے لیے نہیں پلٹتی اور اپنی لہر میں سب کچھ بہا لے جاتی ہے۔
 انسان بھی وقت کی اُسی لہر کا ایک حصہ ہے جو اُس کے لئے سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔چنانچہ جب ہم سمجھ لیتے ہیں کہ وقت ہی زندگی ہے، تو ہمارے لئےوقت کے ایک ایک لمحے کی قدر کرنا انتہائی لازمی ہے۔ظاہر ہے کہ جو لمحہ گزر گیا، وہ
کبھی واپس نہیں آئے گا اور جو وقت ہمارے پاس ہے، وہی ہماری اصل دولت ہے۔ اسے بے مصرف گنوانا یا لاحاصل کاموں میں ضائع کرنا دراصل اپنی زندگی کو ہی کھونا ہے۔ یہ احساس ہمیں اس بات کی طرف مائل کرتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کو بامقصد بنائیں، اپنے وقت کو ایسی چیزوں میں صرف کریں جو ہمارے لئے اور دوسروں کے لیے فائدہ مند ہوں،اس لئے ہر گزرتے لمحے کو اس شعور کے ساتھ گزاریں کہ یہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔ وقت کی قدر ہی درحقیقت زندگی کی قدر ہے۔بے شک زندگی رویوں کا ہی مجموعہ ہے اور ہر انسان اپنے رویوں کے ذریعے اپنی تقدیر کا تعین کرتا ہے۔ مثبت رویے زندگی کو سنوارتے ہیں، اسے خوشگوار اور بامقصد بناتے ہیں، جب کہ منفی رویے زندگی کو زوال کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ رویے دراصل ہمارے خیالات، تجربات اور ماحول کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ جو لوگ محبت، صبر اور خوش اخلاقی کو اپناتے ہیں، وہ نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بناتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔ دوسری طرف، نفرت، تکبر اور ظلم جیسے رویے انسان کو خود بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور معاشرے میں بھی بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر روز، ہر لمحہ، ایک انتخاب کر تے ہیں،ہم کس راستے پر چلیں، کن رویوں کو اپنائیں اور کس طرح اپنی زندگی کا رخ متعین کریںاور جو لوگ شعوری طور پر مثبت رویے اپناتے ہیں، وہ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی ایک مثال بن جاتے ہیں۔ زندگی کا حُسن اسی میں ہے کہ ہم اپنے رویوں پر غور کریں، ان میں بہتری لائیں اور اپنی ذات کے ساتھ ساتھ اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی مثبت بنائیں۔ آخرکار ہماری زندگی کا منتقی انجام ہمارے رویوں کا ہی عکس ہوگا۔درحقیقت انسان لاشعوری طور پر اپنے جیسے رویوں کے حامل افراد کی طرف کھنچتا چلا جاتا ہے۔ مثبت لوگ مثبت ماحول میں سکون پاتے ہیں، جب کہ منفی لوگ اپنے جیسے رویے رکھنے والوں میں جا ملتے ہیں۔ یہی فطرت کا اصول ہے کہ ہم وہی بن جاتے ہیں جس کے قریب رہتے ہیں۔ دُرست رویہ کیسے چنا جائے؟ اس کا بہترین جواب —مذہب، تعلیم اور محاسبہ نفس ہے۔ مذہب ہمیں اخلاقیات، اچھے اوربُرے کی تمیز اور انسانی زندگی کے مقصد کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ تعلیم شعور پیدا کرتی ہے، ہمیں دنیا کے تجربات اور علم سے جوڑتی ہے اور رویوں کے اثرات کا ادراک دیتی ہے۔ محاسبہ نفس ہمیں یہ جانچنے کا موقع دیتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں، ہمارے اندر کون سے رویے موجود ہیں اور کیا ہمیں بہتری کی ضرورت ہے۔لہٰذااگر ہم روزانہ یا کم از کم وقفے وقفے سے اپنے رویوں پر غور کریں ،کیا ہم دوسروں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آ رہے ہیں؟ کیا ہمارے الفاظ اور عمل کسی کو تکلیف تو نہیں دے رہے ہیں؟ کیا ہم اپنی ذمّہ داریاں پوری کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے رویے دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں یا مشکلات؟ تویہ سوالات ہمیں اپنے آپ کی شناخت کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر ہم محسوس کریں کہ ہمارے اندر منفی رویے سر اٹھا رہے ہیں تو ہمیں انہیں سدھارنے کے لیے کام کرنا چاہئے،کیونکہ زندگی ایک نعمت ہی نہیں بلکہ ایک ذمّہ داری ہے۔ یہ محض گزارنے کے لئےنہیں بلکہ اس کا مقصد کچھ کرنے، کچھ بنانے اور کچھ اچھا چھوڑ جانے کا ہے۔ 
 
								 
			 
		 
		 
		 
		 
		 
		 
		