یوں تو یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ وادی کشمیر جس کو جنت بے نظیر کہا جاتا ہے۔ اس سر زمین پر عظیم المر تبت خاصان خدا، قلندروں، ریشیوں اور صوفیوں نے جنم لیا اور چند ایک عظیم شخصیات اوربزرگ حضرات دوسرے ملکوں سے ہجرت کرکے دین اسلام کے دعوتی مشن کی خاطر جنت کشمیر میں داخل ہوکر یہی کے ہوئے ۔ اب اسی جنت میں روزبے گناہ لوگوں اور معصوم بچوں اور خواتین تک کا لہو گلی گلی اور قریہ قریہ بہتا نظر آرہا ہے اور کہیں سے کوئی بیچ بچاؤ نہیں ہورہا۔1947سے لے کر تا ہنوز یہاں کے نوجوانوں، بیٹیوں، ماؤں نے اپنا سلب شدہ حق ، حق خود ارادیت پانے کے لئے بڑی بڑی قربانیاں دیں ، اپنا گرم گرم لہو وطن کی آبرو اور حریت پر نچھاور کر دیا۔ اس کی وجہ صرف ایک ہی ہے کہ ہندوستان کے ساتھ وقت کے ایک غیر حقیقت پسند لیڈر نے وہ اہم سیاسی فیصلہ بغیر کسی سوچ سمجھ کے لیا جس کے پیچھے صرف اس کا اپنا ذاتی مفاد کا رفرماتھا اور تب سے قوم وملت ظلم و جبر کی چکی میں پستی جا رہی ہے ۔ آج کشمیر کا پیروجوان اسی حق آزادی کو بحال کر نے کے لئے بیش قیمت قربانیاں دے رہاہے ۔ گزشتہ ستائیس سال سے خاص کر یہاںاپنا سیاسی حق ڈھونڈنے کی خاطر کشمیرکی ہر شہرو دیہات میں لہو ہی لہو اور قبریںنظر آرہی ہیں۔ اس دوران لاکھوں لوگ آج تک ہندوستانی فوج اور اس کے مددگار وردی پوشوں کے ہاتھوں مارے گئے۔گو کہ یہ بات ہر کسی کو معلوم ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ ریاست ہے اورا س مسئلہ کا حل یو این قراردادوں کے مطابق ہونا باقی ہے مگر افسوس کہ عالمی طاقتیں بھارت سے مطلبی یارانہ گانٹھ کر کشمیر کو نظر انداز کر رہی ہیں ۔ بایں ہمہ اس مسئلہ کو حل کرنے کے خاطر بات چیت ایک بہترین اور موثر طریقہ ہے لیکن اس کے برعکس جنگ و جدل کی فضا بنائی جا رہی ہے۔اس بیچ اگر کوئی مر رہا ہے تو وہ ہے صرف کشمیری عوام ہیں۔ بے شک اس کشمکش میں ہندوستانی اور پاکستانی افواج اور سوئیلین آبادی کا بھی نقصان ہورہاہے مگر زیادہ تر دشمنی اور رقابت کا بوجھ ہم کشمیریوں پر پڑ رہاہے ۔ انڈین آرمی نے یہاں ہر گلی، ہرگاؤں اور ہر شہر میں خون کی ندیاں بہا دی ہیں تاکہ کشمیری عوام اپنے کازکو تج دیں مگر کشمیری لوگ اس کے لئے قطعاً تیار نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ظلم و جبر ہمیشہ کے لئے یونہی چلتا رہے گا؟ کیا کشمیر یوں کی آواز ہمیشہ بندوق کی نوک پر دبائی جاتی رہے گی؟ کیا ہندوستان اور پاکستان کو جنگ وجدل اور بھاری بھرکم دفاعی اخراجات سے کچھ حاصل ہونے والا ہے؟ نہیں۔پھر عقل ودانش کا تقاضا یہ ہے کہ کشمیر حل کے لئے بلا تاخیر بات چیت شروع کی جائے تاکہ کشمیر کی ہر گلی میں لہو ہی بہنا بند ہو۔ آخرکب تک ہمارے نوجوان اپنا گرم گرم لہو سڑکوں اور بیابانوں میںبہا دیں گے؟ کب تک معصوم بچوں کا قتل کیا جائے گا؟ کب تک خواتین ظلم وتشدد سہیں گی ،کب تک خوف و دہشت کی گرم بازاری میں بزرگ بے موت مریں گے ؟ خدا را! ذرا سا سوچئے۔
آج کی تاریخ میں کڑاو سچ یہ ہے کہ جنت بے نظیر میں رہنے والے لوگ اپنے گھروں سے باہر آ کر یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ لوٹ کر بھی آنا یا نہیںکیونکہ چہار سو بندوق وبارود کا راج ہے۔یہاں کوئی فرد بشر نہیںجو اپنے آپ کو محفوظ سمجھتا ہو ۔ پوچھا جانا چاہیے کہ کشمیر میں انسانیت کے قتل کا آخر ذمہ دار ہے کون؟ اس مدعے پر سوچ وبچار کی ضرورت ہے۔ بہرصورت پوری امن پسند اور مہذب دنیا کہتی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنے چاہیے ،ا نہیں مظلوم کشمیری عوام کی دلی خواہشات کو مدنظر رکھ کر کوئی نہ کوئی قابل قبول فیصلہ دیر سویرلینانا ہوگا،تب جاکر یہاں بے گناہ شہریوں کی قتل و غارت گری پر روک لگ سکے گی اور معصوم جانیں خطرے میں پڑنے سے بچیں گی۔ یاد رکھئے جنگ و جدل سے آج تک نہ کوئی مسئلہ حل ہوا اور نہ آگے اس کی کوئی توقع ہے۔اس سے تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی حاصل ہونے والانہیں ۔جنگ و جارحیت سے گھروں کے گھر اجڑ جائیں گے، بستیاں اکھڑ جائیں گی ،عورتیں بیوہ،بچے یتیم اور کام کر نے والے معذور واپاہج بن جائیں گے ، زندگی کاہر کوئی متحرک شعبہ ٹھپ ہوگا ۔ اس لئے وقت کا تقاضا بھی یہی ہے اور برصغیر کے عوام کا مفاد بھی اسی میں مضمرہے کہ تینوں فریق سر جوڑے بیٹھ کر کوئی قابل قبول ، منصفانہ ا ور دیر پا کشمیر حل نتیجہ خیز بات چیت سے نکالنے کے لئے کمر ہمت کس لیں ۔
9796370931