اس کے لئے انہیں کافی رقمیں ملا کرتی تھیں اور یہ کام وہ کافی عرصہ سے کرتے آئے تھے،اُن لوگوں نے ایک ٹیلی فون ایکس چینج چلاکر ایسے طریقے اور تدابیر کیں تھیں جس سے انٹرنیشنل کال کو وہ لوکل کال میں تبدیل کرکے انٹلی جنس محکمہ کو بھی چکمہ دیا کرتے تھے۔اس ضمن میں یہ بات کتنی خوش آئند اور مسرور کن ہے کہ مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ جناب دِگ وجے سنگھ نے ٹویٹ کرکے یہ انکشاف کیا کہ پکڑے گئے دیش دشمنوں میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا بلکہ وہ سب بی جے پی کے رُکن تھے ۔ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے ،راجستھان کے باڑ میر اور جودھپور علاقوں سے فوج کی سرگرمیوں کی خفیہ اطلاعات اور فوٹو گراف پاکستانی انٹیلی جنس آئی ایس آئی کو فراہم کرنے کے سلسلے میں تین پاکستانی جاسوس پولیس نے گرفتار کئے۔معلوم ہونا چاہئے کہ وہ کون تھے؟۔۔۔۔۔لو۔۔۔۔۔
ع میں نے پردہ جو اٹھایا تو قیامت دیکھی
جی ہاں!اُن کا نام ہے ساتا رام مہیشوری ،وجو کمار اورسنیل کمار ۔ارے کمال ہوگیا ۔کیا یہی لوگ ہم سے حب الوطنی کا سند طلب نہیں کرتے تھے۔کیا یہ خود وطن دشمن ہوکر ہم کو مختلف ناموں سے بلاکر تنگ طلب نہیں کرتے تھے اور بے گناہ و بے قصور ہوکر ہماری زندگیاں کال کوٹھریوں میں نہیں سڑاتے تھے ۔خوب بہت خوب کیا کہنے دیش کے وفا داروں کو ،بقول پروفیسر حفیظ بنارسیؔ ؎
ہم نے وفا کی راہ میں سب کچھ لٹا دیا
پھر بھی وہ کہہ رہے ہیں وفادار ہم نہیں
اب اس صورت حال کا کیا علاج ہے ۔میرے خیال میں کچھ بھی نہیں کیونکہ معاملہ کتنا بھی سنگین ہو ،ہندو کے لئے نہ جیل ہے نہ سزا اور نہ ہی پھانسی ،جب کہ بے قصور مسلمان کے لئے مذکورہ تینوں’’سہولیات‘‘(سزائیں) مقدر ہیں کیونکہ بقول شاعر ؎
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
یہ شعر من و عن ثابت ہوچکا ہے ۔جیسے شہید افضل گورو کو بے قصور ہوکر پھانسی اور ملک کے وزیر اعظم کے قاتلوں کو ہر طرح کی سہولیات۔اور سنئے آپ کو یاد ہوگا ،سن 2002ء میں گجرات میں بے قصور مسلم ماوئوں کو اپنے بچوں کے ساتھ قتل کیا گیا ۔سینکڑوں لوگوں کو گھروں ،دکانوں ،گئو شالوں میں بند کرکے پٹرول چھڑک کر زندہ جلایا گیا ۔اربوں روپے کی جائدادوں کو خاک چٹائی گئی ۔حاملہ خواتین کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا جو آج تک سیاہ تاریخ کے چہرے پر کبھی رقم نہیں ہوا ہے ۔پانچ چھ سالہ کم سن اور معصوم بچیوں کی بے حرمتی کی گئی اور گربھ وتی خواتین کا پیٹ چاک کرکے اُن کے حملوں (Featus)سے فٹ بال کھیلا گیا،مگر کس کو سزا ملی ؟کون قصور وار ٹھہرا ؟جنہوں نے وہ کانڈ کیا یا کروایا وہ آج تمام تر دنیاوی آسائشوں کے ساتھ د ندناتے پھر رہے ہیںاور دھڑلے سے مفلوک الحال بے بس و بے کس مصیبت رسیدہ کی چھاتیوں پر مونگ دلتے رہتے ہیں بلکہ اس طرح کے کانڈ کرنے والے ہی حکومت میں بھی آتے ہیں۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ استحصال ،ظلم و جبر یا تکالیف میں کوئی کمی یا تخفیف ہونے والی ہے وہ اُس کی خوش خیالی ہے ،کیونکہ ؎
ہاں تلخیٔ ایام ابھی اور بڑھے گی
ہاں اہل ِستم مشقِ ستم کرتے رہیں گے
(فیض)
رہی خدائی مدد کی بات ،وہ بہر صورت اور ہر حال میں مل کر ہی رہے گی مگر اُس کے لئے یہ ضروری ہے کہ لوگ خود اپنی مدد آپ کریں کیونکہ خدا اُس قوم کی حالت تب تک تبدیل نہیں کرتا جب تک نہ وہ قوم خود اپنی حالت تبدیل کرنے پر آمادہ ہواور حالت تبدیل کرنے کے لئے تمام ہندوستانی مسلمان قوم سموسے ،چھولے ،پروٹھے بنانے کو بے شک اپنا پیشہ رکھیں ۔حجامی ،ترکھانی ،پلمبری ،رنگ سازی،میکنکی،مزدوری،رکھشا کھینچائی سے وہ ضرور روزی روٹی کے سادھن جُٹائیں مگر انہیں اپنے بچوں کو اپنی آنے والی نسل کو زیور تعلیم سے آرستہ کرنا لازمی ہے ۔وہ بچوں کو نہ سہی اُردو میڈیم بلکہ اُس میڈیم سے جو اسکولوں میں اُن پر زبردستی ٹھونسا جاتا ہے، ضرور پڑھائیں مگر پڑھائیں ضرور،آگے بڑھائیں اور بد دلی ،مایوسی کو خیر باد کہہ دیں۔آنے والے وقتوں میں وہ بھی مقابلہ جاتی امتحانات میں سینہ ٹھونک کر دوسروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوسکیں اور اپنے آپ کو منوائیں ۔اس سے یہ ہوگا کہ وہ مختلف محکمہ جات میں اپنی جگہ بنا سکیں گے ،قلیل ہی سہی مگر وہ کسی نہ کسی صورت میں اپنوں کی مدد کرنے کے قابل ہوسکیں گے ۔
اب رہی اُس تشویش کی بات کہ مسلمانوں کا میرٹ ہوکر بھی نظر انداز کیا جاتا ہے اور نہ اُنہیں قابل اعتنا ،نہ قابل اعتبار سمجھا جاتا ہے ۔ایسا ہوسکتا ہے مگر یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ آوے کا آوا کبھی نہیں بگڑتا خصوصاً ملکی معاملات میں۔آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل کتنے ادیبوں اور دانشوروں نے اپنے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ حکومت کو واپس لوٹا دئے۔کیا وہ سارے مسلمان ہی تھے؟ ،نہیں، اُن میں اٹھانوے فی صد ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔حالات ہمارے لئے گرچہ نہ اچھے ہیں اور نہ ایسے ہیں کہ ہم اطمینان سے زندگی گزارنے کی سوچیں مگر بالکل بُرا وقت بھی نہیں آیا ہے ۔اس وقت بھی سارے بھارت میں متعصب اور مسلم دشمن عناصر کو چھوڑ کر ایسے سیکولر ،کشادہ دل اور وسیع الخیال ذہن رکھنے والے لوگ موجود ہیں جو مکمل طور سے ملکی اتحاد و اتفاق میں یقین رکھتے ہیں اور انصاف کے ایسے دروازے،گرچہ قلیل ہی سہی ،ابھی کھلے ہیں جہاں ضرور بہ ضرور انصاف مل کر ہی رہتا ہے ۔اس کی مثال اُن مسلمان بچوں سے دی جاسکتی ہے جو معصوم و بے قصور ہوکر جرمِ مسلمانی میں جیلوں کے اندر گھل سڑ رہے تھے مگر اُن میں سے بہت سارے رہائی پاگئے ۔جن جج صاحبان نے اُن کے ساتھ انصاف کیا گرچہ دیر سے ہی سہی مگر کرتو لیا ،جیسے انگریزی میں کہتے ہیں۔۔۔۔(Although late than never)وہ مسلمان نہیں ہندو برادری سے تعلق رکھتے تھے۔
عرض یہ کہ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے خود میں بہت حد تک تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔مایوس ہوکر اور دب کربیٹھنے سے ہمارے حالات تبدیل نہیں ہوسکتے ۔یہ ہمارا بھی ملک ہے یہاں ہمارے پُرکھوں کی جائدادیں ہیں ،ہم اپنے آپ کوغیر کیوں تصور کریں؟؟؟ان سطور کو اختتام پذیر کرنے سے قبل یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ حکیم امیر مینائیؔ کے بقول ؎
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
کون سی جا ہے جہاں جلوۂ معشوق نہیں
شوقِ دیدار اگر ہے تو نظر پید ا کر
وما علینا الاالبلاغ (ختم شد)