موجودہ پارلیمانی سیشن میں بل لانے کی کوشش کی جائیگی:عمر عبداللہ
سرینگر// وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بدھ کے روز کہا کہ انہوں نے پارلیمنٹ میں نمایاں موجودگی کے ساتھ متعدد جماعتوں کو خط لکھا ہے، جس میں جاری مانسون اجلاس میں جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے لیے ایک بل پیش کرنے کے لیے ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔عبداللہ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ میں نے ان تمام جماعتوں کو خط لکھا ہے جن کے پارلیمنٹ میں اچھی خاصی تعداد میں ارکان پارلیمنٹ ہیں اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کے وعدے پر مدد کریں اور اس مسئلہ کو پارلیمنٹ میں اٹھائیں تاکہ اس سیشن میں ہی ایک بل لایا جائے اور جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس مل جائے۔انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ کسی فرد یا پارٹی یا حتی کہ حکومت کا نہیں ہے، یہ جموں و کشمیر کے لوگوں سے کئے گئے وعدے کا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ وعدہ عوامی جلسوں، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں کیا گیا ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وعدہ پورا ہو۔
سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کی طرف سے 8اگست کو جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کی درخواست کی سماعت کے امکان پر، عبداللہ نے کہا کہ اگر حکومت ایسا نہیں کرتی ہے تو بحالی عدالت کے ذریعے ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا”یہ ایک اچھی بات ہے اور مجھے امید ہے کہ سپریم کورٹ اس بات کو ذہن میں رکھے گی کہ جب انہوں نے 5 اگست (دسمبر 2023میں) کیس پر فیصلہ دیا تھا، تو انہوں نے کہا تھا کہ ریاست کو جلد از جلد بحال کیا جانا چاہیے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اب کئی سال گزر چکے ہیں لیکن ہمیں ابھی تک نہیں ملا۔انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرانے کی کوئی ڈیڈ لائن مقرر نہ کی ہوتی تو شاید میں آج وزیر اعلیٰ کے طور پر آپ سے بات نہ کرتا۔انہوں نے کہا”انتخابات اس لیے کرائے گئے کہ سپریم کورٹ نے ایک ڈیڈ لائن مقرر کی تھی اور الیکشن اس وقت کے فریم میں ہوئے تھے، ہم چاہتے ہیں کہ اب بہت وقت گزر چکا ہے اور اگر یہ (ریاست کی بحالی)حکومت کے ذریعے نہیں آتی ہے تو اسے عدالت کے ذریعے ہونا چاہیے‘‘۔
مکتوب
جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے بڑھتے ہوئے مطالبے کے درمیان وزیراعلیٰ کا یہ دبا ئو جموں و کشمیر کے لوگوں کے تئیں مرکز کو جوابدہ بنانے کی ایک نئی کوشش ہے۔29جولائی کو عبداللہ نے کانگریس کے سربراہ ملکارجن کھرگے سمیت 42سیاسی جماعتوں کے صدور کو ایک خط لکھا، جس میں ان پر زور دیا گیا کہ وہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لیے مانسون اجلاس میں قانون سازی کرنے کے لیے مرکز پر دبا ڈالیں، اور کہا کہ اسے رعایت کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے، بلکہ ایک ضروری اصلاح کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔انہوں نے لکھا کہ کسی ریاست کو یونین کے زیر انتظام علاقہ میں گھٹانا ایک “گہری اور پریشان کن” مثال قائم کرتا ہے اور یہ ایک “آئینی سرخ لکیر” ہے جسے “کبھی عبور نہیں کرنا چاہیے‘‘۔تین صفحات پر مشتمل خط میں کہا گیا ہے کہ 2019 میں جموں و کشمیر کو ریاست سے کم کرکے یونین کے زیر انتظام علاقہ بنانے کا عمل اور مکمل ریاست کے طور پر اس کی حیثیت کو بحال کرنے میں طویل تاخیر ہندوستانی سیاست کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔
وعدہ کہاں گیا
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی ایک یونین کے زیر انتظام علاقے میں تنظیم نو کو ایک “عارضی اور عبوری اقدام” کے طور پر پیش کیا گیا اور وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے بار بار عوامی یقین دہانیوں کا حوالہ دیا، جس میں اس سال کے شروع میں کشمیر میں کیا گیا ایک وعدہ بھی شامل ہے جسے انہوں نے “مودی کاوعدہ” کہا تھا۔عبداللہ نے سپریم کورٹ کے سامنے مرکز کے موقف کا بھی حوالہ دیا جس میں جلد از جلد ریاست کا درجہ بحال کرنے کے اپنے عہد کی تصدیق کی گئی۔تاہم انہوں نے کہا “شرائط کی تشریح جیسےجلد سے جلد برسوں یا دہائیوں تک نہیںچل سکتی ۔جموں و کشمیر کے لوگ پہلے ہی کافی انتظار کر چکے ہیں ، ریاست کا درجہ اب بحال ہونا چاہیے‘‘۔انہوں نے جموں و کشمیر کے لوگوں کی”طویل اور بے مثال بے اختیاری‘‘کو “غیر منصفانہ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ “اس عقلیت کو کمزور کرتا ہے جسے اگست 2019 کی تبدیلیوں کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا‘‘۔عبداللہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا “نو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور ابھی تک اس پختہ یقین دہانی کو پورا کرنے کی طرف کوئی واضح، ٹائم لائن، یا نظر آنے والی پیش رفت نہیں ہے‘‘۔وزیر اعلیٰ کے خط میں متنبہ کیا گیا ہے کہ’’عارضی حیثیت حقیقی وابستگی کے مقابلے میں ایک آسان بہانہ کے طور پر زیادہ ظاہر ہونے لگی ہے جو ایک ناقابلِ دفاع عمل کے طور پر کام کر رہی ہے‘‘۔
یاترا
امرناتھ یاتراپرعمرعبداللہ نے امید ظاہر کی کہ واقعہ سے پاک اور کامیاب امرناتھ یاترا کے بعد جموں و کشمیر میں سیاحوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔انہوںنے کہا”تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ 22اپریل(پہلگام) کے حملے کے بعد حالات ایسے نہیں رہے جیسے تھے۔ امسال بھی اچھی یاترا تھی، تقریباً 4 لاکھ یاتریوں نے بالتل اور پہلگام سے یاترا کی، اور یاترا کے دوران حالات اچھے رہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ اب ہمیں امید ہے کہ سیاح ملک کے مختلف کونوں سے آنا شروع ہو جائیں گے اور جموں و کشمیر کے لوگوں کی مہمان نوازی سے فائدہ اٹھائیں گے۔