وہ لائبریری میں میرے روبرو کرسی پر براجمان تھی۔اُس نے آخری مرتبہ میری آنکھوں سے آنکھیں ملائیں۔اب کی بار وہ شاید حتمی فیصلہ لینے والی تھی،اسی لئے شایداتنی گہرائی سے میری آنکھیں پڑھ رہی تھی۔پھر کچھ دیر بعد ہی اُس نے اپنی بادامی آنکھیں بند کرلیں اور یادوں کے گہرے سمندر میں ڈوب گئی۔چند منٹوں کے لئے لائبریری میں سناٹا چھایا رہا اور اور بالآخر مختصر توقف کے بعد اُس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور ہولے سے اپنے ہونٹوں کو حرکت دے کر اپنا فیصلہ سُنانے لگی۔۔۔فیصلہ میرے حق میں ہی تھا۔۔۔وہ اپنی زندگی کا سفر میرے سامنے بیان کرنے کیلئے راضی ہوچکی تھی۔ اندھیری گھٹاؤں سے روشن شعاؤں تک کا سفر،عشق ِمجازی سے عشق حقیقی کا سفر،نتاشا مہتا سے فاطمہ بننے کا سفر۔۔۔۔۔۔
دل واقعی ایک نرالی بستی ہے۔اس بستی میں کب کوئی آکر آباد ہوجائے،اس بات کا انسان کو علم ہی نہیں ہوتا۔نتاشا اگرچہ یونیورسٹی پہنچنے تک’عشق‘،’محبت‘،’پیار‘ جیسی اصطلاحات پہ یقین نہیں رکھتی تھی لیکن یونیورسٹی پہنچ کر اُس کے دل نے کروٹ بدلی اوروہ اپنے ہی ہم جماعت راکیش سے محبت کر بیٹھی۔۔۔کسی کی نظروں سے اوجھل ہونے پر اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہونا،کسی کے خیالوں میں غوطہ زن ہوکر رات بھر کروٹیں بدلنا۔۔۔اگر یہی محبت ہے تو نتاشا واقعی راکیش سے محبت کر چکی تھی۔محبت انسان سے کیا کیا جتن نہیں کرواتی،ورنہ نتاشا کی طرح کون سی لڑکی ایک لڑکے کے سامنے محبت کا اظہار کرنے میں پہل کرتی ہے۔۔۔جس دن راکیش نے نتاشا کی محبت کو قبول کیا، وہ دن اُس کی زندگی کا حسین دن تھا۔کاش!نتاشا کو اُسی دن اس بات کا علم ہوتا کہ یہ محبت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ پائے گی۔اُس نے اپنی محبت کے بارے میں کیا کیا سپنے نہیں دیکھے تھے لیکن کون جانتا تھا کہ اُس کے سپنوں کی یہ عمارت اتنی جلد ریزہ ریزہ ہوجائے گی۔یہ سپنے بھی عجیب شے ہے۔انسان سپنے دیکھ کر کتنا مسرور ہوجاتا ہے اورپھر ایک دن اچانک وہ سارے سپنے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔کاش!ظالم تقدیر کے مقابلے سپنوں کا پلڑا ہی بھاری ہوتا۔
نتاشا کو ظالم تقدیر کی مار سہنا پڑی اور تین ماہ کے اندر ہی راکیش نے اُسے ٹھکرا دیا۔راکیش سے جدائی کا غم اس قدر سنگین تھا کہ نتاشا دُنیا و مافیا سے بے نیاز ہوکر رہ گئی۔محبت جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو جنون کا روپ اختیار کرتی ہے۔نتاشا بھی جنون میں مبتلا ہوچکی تھی،اب کوئی مسیحا ہی اُسے اس جنون سے باہر لاسکتا تھا۔
ایک دن اسی جنونی حالت میں وہ یونیورسٹی لائبریری میں داخل ہوئی اور ایک موٹی سی کتاب شلف سے اُتار کر اُسے پڑھنا شروع کیا۔کتاب بھی کیا دلچسپ تھی،جو نتاشا اپنے وجود تک سے بے خبر تھی وہی آج اُس کتاب میں اتنا ڈوب چکی تھی کہ اُسے گھنٹوں کے گزرنے کا احساس ہی نہیںہورہا تھا۔وہ کتاب کے صفحے پلٹتی جارہی تھی اور ہر صفحہ پلٹنے کے ساتھ اُس پہ ایک عجیب کیفیت طاری ہورہی تھی۔آج مدتوں بعد اُسے قلبی اطمینان میسر آچکا تھا۔کئی گھنٹے بیت جانے کے بعداُس نے کتاب کو بند کیا۔کتاب کی باہری جلد پر انگریزی کے تین الفاظ لکھے تھے،’The Holy Quran‘۔۔۔۔۔
ایک سال کی مکمل تحقیق کے بعد وہ اسلام کو مکمل جان چکی تھی۔وہ اب فیصلہ بھی لے چکی تھی۔اُسے اس دھرم کو قبول کرنا تھاجس نے اُس کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی تھی۔وہ سڑک کے کنارے کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی،اُسے اب بھی اپنے آپ پر بھروسہ نہیں ہورہا تھا۔۔۔’کیا میں واقعی اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں؟‘،کہیں میرا یہ فیصلہ غلط تو نہیں؟‘۔اُس کا ذہن انہی سوالات میں الجھا تھا جب ایک درویش نما شخص سڑک کنارے اُس کے سامنے آکھڑا ہوا اور سرتاپا اُس کا مکمل جائزہ لینے کے بعد یہ شعر گنگنانے لگا ؎
یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہے مسلمان ہونا
درویش کے یہ الفاظ سُن کر وہ سرتاپا برف کی طرح جم گئی۔’کیا دُنیا میں ایسے لوگ بھی موجودہیںجو لوگوں کے اذہان میں چھپی باتوں تک سے واقف ہوتے ہیں؟‘درویش نے واقعی اُسے چونکا دیا۔
نتاشا نے اسلام قبول کیا اور اپنا اسلامی نام فاطمہ رکھ دیا۔اسلام قبول کرنے کے بعد اُس کا امتحان شروع ہوگیا۔ماں باپ،دوست،رشتہ دار،غرض ہر ایک نے اُسے ٹھکرا دیا۔ماں باپ نے اُسے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ’ہم نے نتاشا کو جنم دیا تھا نہ کہ فاطمہ کو،جس دن فاطمہ نتاشا بن کر واپس آئے گی اُس دن ہم اُسے قبول کریں گے‘۔نتاشا سے فاطمہ بننے کے بعد ہر ایک نے اُس کے لئے اپنے دروازے بند کردئے۔اُس پر ظلم و تشدد کے پہاڑ ڈھائے گئے۔درویش نے شائد سچ ہی کہا تھا۔۔۔۔۔۔
’’بابا میں اب کیا کروں۔ہرایک نے مجھے ٹھکرا دیا‘‘۔وہ درویش کے سامنے اپنی حالتِ زار بیان کر رہی تھی۔
’’بیٹی! میں بس ایک ہی بات کہے دیتا ہوں،اُسی ایک بات میں تمہارے سارے مسائل کا حل چھپا ہے‘‘۔
’’جی بابا!فرمائیے‘‘۔
’’بیٹی!قرآن تو تم پڑھتی ہی ہوگی؟‘‘
’’جی بابا‘‘۔
’’بس پھر تو تمہارے سارے مسائل سمجھو حل ہوگئے۔میں تمہیں آج قرآن پڑھنے کا صحیح طریقہ سمجھا دیتا ہوں۔بیٹی!جب بھی قرآن کی تلاوت کروتو سمجھوکہ قرآن تم پر ہی نازل ہوا ہے اور خدا تم سے ہی مخاطب ہے۔جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہو تو قرآن کھول کر خدا سے اُس کا حل مانگا کر بیٹی!۔آزما کر دیکھ لوبیٹی!۔شرط صرف اتنی ہے کہ میرے بتائے ہوئے طریقے سے تلاوت کرنی ہے‘‘۔
وہ خواتین کے دارالعلوم میں پہنچی تو سب سے پہلے اُس نے درویش کے بتائے ہوئے طریقے کو آزمانے کی ٹھان لی۔وہ مصلح بچھا کر دوزانو بیٹھ گئی اور اپنے ہاتھوں کو فضا میں بلند کیا،’’خدایا!مجھے ان ظالموں سے نجات دے۔بے شک تو ہی نجات دینے والا ہے‘‘۔اُس کی زبان سے بے ساختہ یہ کلمات ادا ہوئے۔دُعا کرنے کے بعد اُس نے قرآن کھولاتو اُس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔قرآن کے الفاظ نے اُسے زبردست چونکا دیا۔۔۔خدا نے اتنی ہی دیر میں اُس کے سوال کا جواب دے دیا تھا،اُس کا مسئلہ حل ہوچکا تھا۔اُس نے بے یقینی کے عالم میں پھر سے وہ قرآنی الفاظ پڑھے،’’اور ان ظالموں کے بارے میںمجھ سے بات نہ کرنا۔یہ ضرور ڈبوئے جائینگے۔ (المومنون۔۲۷)‘‘۔
اُس نے قرآن بند کیا تو اُس کا دل ہر بوجھ سے آزاد ہوچکا تھا۔۔۔اُسے اپنے رب کی بات پر کامل یقین تھا۔ابھی وہ مصلا سے کھڑی بھی نہ ہوئی تھی کہ ساری زمین لرز اُٹھی۔وہ مصلا سے کھڑی ہوئی توزوردار زلزلے نے اُسے زمین پر پٹخ دیا۔چند منٹوں تک زلزلہ جاری رہا۔زلزلہ تھم گیا تو اُس نے کھڑکی سے باہر جھانکا،لیکن یہ کیا۔۔۔باہر تو سب کچھ ملیا میٹ ہوچکا تھا۔عمارتیں زمین بوس ہوچکی تھی۔۔۔کئی لوگ زندہ دب چکے تھے۔۔۔اُس کے ذہن میں بس ایک ہی سوال تھا،’کیا خدا ظالموں سے بدلا لے چکا ہے،جنہوں نے میری زندگی کو اجیرن بنا دیا؟۔۔۔کیا اُس نے اتنی جلدی اپنا وعدہ پورا کرلیا؟‘۔اُس نے دوبارہ قرآن کھولا تو وہی صفحہ پھر سے کھل گیا۔۔۔اب کی بار وہ پہلے سے زیادہ چونک گئی۔۔۔خدا نے اُس کے دوسرے سوال کا جواب بھی دے دیا تھا،وہ بار بار اُن روشن الفاظ کا ورد کر رہی تھی،’’سب تعریف اﷲ کے لئے ہیں جس نے ہمیں ان ظالموں سے نجات دی(المومنون۔۲۸)‘‘۔
وہ فوراً سجدے میں گر پڑی اور زاروقطار رونے لگی۔آج فاطمہ ہی نہیں بلکہ اُس جیسے بہت سے مظلوم ظالموں کے چنگل سے آزاد ہوچکے تھے،تبھی تو اﷲنے فاطمہ کو‘ہمیں‘کہہ کر مخاطب کیا تھا۔۔۔آج خدا اپنا وعدہ پورا کرچکا تھا۔۔۔۔۔۔
اُس نے اپنی کہانی ختم کی تو لائبریری میں پھر سے سناٹا چھا گیا۔ہم دونوں کی نظریں آپس میں پھر سے ٹکرائیں لیکن اب کی بار ہم دونوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑیاں چھلک رہی تھیں۔
برپورہ پلوامہ کشمیر،[email protected]
Twitter@SahilAhmadlone2