دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں ہندوستان سب سے زیادہ ترقی کے راستے پر گامزن ہے۔اس کی معیشت سالانہ تقریباً ۷؍فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔اس معاملے میں اس نے چین کو بھی مات دے دی ہے۔امریکہ اور یوروپی ممالک کی معیشتیںبھی اس تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھ رہی ہیںبلکہ ان کی شرح ۳؍ فیصد کے نیچے ہی ہے۔جرمنی جس کی معیشت دنیا میں ۵؍ویں پوزیشن پر ہے ،اس کی بھی شرح نمو ڈیڑھ فیصد سے زیادہ نہیں جب کہ یہ تمام ترقی یافتہ ملک ہیں۔اس لئے ملک عزیز کی ترقی دیکھ کر نہ صرف رشک ہوتا ہے بلکہ خوشی بھی ہوتی ہے کہ ہمارا ملک ایک نہ ایک دن دنیا کے تمام ملکوں میں ترقی کے معاملے میں سر فہرست ہوگا۔کسی ملک کے لئے اس کی معاشی ترقی ہی سب کچھ ہے یا اس کے علاوہ بھی عوامل ہیں جو اس کو ہمہ جہت ترقی میں شمار کرتے ہیں ،اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ان عوامل پر جب نظر ڈالتے ہیں تو ملک عزیز کے تئیں مایوسی ہاتھ لگتی ہے اور مذکورہ ترقی ایک بھیانک خواب سے کم نہیں معلوم پڑتی۔
امریکہ میں نائن الیون کا دہشت گردانہ واقعہ رونما ہوا۔حقائق کچھ بھی ہوںاور اس بارے میں امریکہ نے یہی بتایا کہ یہ نا قابل معافی حرکت چند مسلمانوں نے انجام دی ۔اس میں کلیدی ملزم اسامہ بن لادن کو قرار دیا گیا۔اس کے بعد امر یکہ نے اپنے حربی اتحاد سے مل کر اُسامہ کو پناہ دینے کا الزام عائد کر کے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اورکچھ برسوں بعدامریکی فوجیوں کے ذریعے پاکستان میں اسامہ کو قتل کر دینے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔۔۔۔لیکن نائن الیون کے بعد امریکہ کے اندر کسی بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف کسی رد عمل کا اظہار نہیں ہوا۔ چھوٹے موٹے اکادُکا واقعات کو چھوڑ کر کوئی بڑا حادثہ امریکیوں کی طرف سے اپنے ملک میں انجام نہیں دیا گیا۔سیاسی سطح پر کچھ بھی ہولیکن انتظامی سطح پربہت حد تک ایمانداری موجود ہے کہ امریکی پولیس شرپسندی انجام دینے والوں کو دیکھتی ہے اور اْن سے نمٹتی بھی ہے۔وہ یہ نہیں دیکھتی کہ شر پسند عناصر عیسائی ہیں یا مسلمان یا کچھ اور۔اہم بات یہ ہے کہ وہاں پولیس ’’پارٹی‘‘ نہیں بنتی بلکہ ایک منصفانہ اور پیشہ ورانہ رول ادا کرتی ہے۔یہی سبب ہے کہ وہاں کی عدالتوں میں (جھوٹ پر مبنی)مقدموںکی تعداد کم ہے۔
فرض کریں کہ خدانخواستہ نائن الیون والا حادثہ ہندوستان میں وقوع پذیر ہوا ہوتا اور مسلمانوں کو ملزم ٹھہرا دیا جاتاتو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہاں اس کے ردعمل میںکیا ہوتا اور اس میں پولیس کا کیا رول ہوتا؟یقینی طور پر اس میں ایک فریق ’’پولیس‘‘ بھی ہوتی۔اس کے برعکس اگر ملزمین میں اکثریتی برادری کے لوگ ہوں تو پولیس تماشائی کا رول ادا کرتی ہے۔بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد کے فسادات اس کے گواہ ہیں۔بابری مسجد مقدمے میں فسادیوں کو آج تک کوئی سزا نہیں ہوئی اور نہ آئندہ اس کی کوئی اُمید ہے کیونکہ پولیس نے مقدمہ ہی کمزور بنایا۔۲۵؍برس بیت گئے لیکن اس مقدمے میںآج تک کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوئی ۔افسوس کا مقام ہے کہ ہندوستان میں پولیس کے رول اور اس کے احتساب اور اصلاح پرکوئی سنجیدہ بات نہیں ہوتی بلکہ ایک طرح سے اسے بے لگام چھوڑ دیا گیا ہے،حالانکہ کسی بھی جمہوری ملک میں پولیس کو یوں آزاد نہیں چھوڑا جانا چاہئے۔ملک میںنئے اقتدار کے ساتھ نظم و نسق کا مسئلہ جو درپیش آیا ہے، اس کے سد باب یا درستگی کے لئے کون سے کام انجام دینے ہوںگے ،اس پر بات نہیں ہو رہی ہے اور بات بھی کیسے ہوسکتی ہے کیونکہ ان سب کا سربراہ اس کے حق میں ہی نہیں ہے کہ اس پر کوئی بات ہو۔وہ سب کچھ’’ترقی‘‘ جو کہ نام نہاد ہے،میں ہی دیکھتا ہے اور دیکھنا چاہتا ہے۔لوگ پیٹ پیٹ کر مارے جائیں یا پولیس مرتے ہوئے کو ’’اور بھی مرتا‘‘ ہوا چھوڑ دے ،اُسے اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔گزشتہ تین برسوں میں ہجوم کے ذریعے پیٹ پیٹ کر مارے جانے والوں کی تعداد ایک درجن کے قریب پہنچ گئی ہے اور وہ تمام کے تمام مسلمان ہیں۔ابھی حال ہی میں ایک اور واقعہ مظفر نگر میں پیش آیا ہے جس میں ایک شخص کو صرف اس شک کی بنا پر پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا کہ اس کا بھتیجا مبینہ طورکسی ہندو لڑکی کے عشق میں گرفتار تھا اور لڑکی کے رشتہ داروں کے مطابق اسے بھگا کر لے گیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ چچا درپردہ ان کی مدد کر رہا تھا۔اگرچہ لڑکی بالغ ہے اور اس کا بیان آنا ابھی باقی ہے۔اس درمیان ہجوم کے ذریعے فیصلہ صادر کرنا کہاں تک مناسب ہے؟اور ریاستی پولیس کیا کر رہی ہے؟اور معاشرے کے دوسرے لوگ بیچ بچاؤ کیوں نہیں کرتے؟لوگوں کے ذہنوںمیں جو زہر بودیا گیا ہے اور جو آج بھی جاری ہے،اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ اس طرح کے دلدوزواقعات اورحادثات میں روزبروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔
ہندوستان کے ایک عام شہری کو پولیس اور اس سے وابستہ محکمے پر کتنا بھروسہ ہے؟ اس پر کسی ادارے کو تحقیق کرنے کی اشدضرورت ہے۔اسی طرح یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ ہندوستانی مسلمان پولیس محکمے میں کتنا یقین رکھتے ہیں اور دوسری قوم کے لوگوں کا ان پر کتنا اعتماد ہے؟حالات بتاتے ہیں کہ پولیس کے تئیں بھارتیہ عوام کے اعتماد میں حد درجہ کمی آئی ہے۔صورت حال یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنی جان بچانے کے لئے پولیس کے پاس جاتے ہوئے جھجھک محسوس کرتا ہے۔گجرات مسلم کش فسادات کے دوران کانگریس کے سابق رکن پارلیمان احسان جعفری کے دردناک قتل کو کون فراموش کر سکتا ہے ؟ان حالات میں ایک مسلمان اقلیت حکومت کی ’’ترقی میں اپنی ’ترقی ‘ ‘کیسے تلاش کرے؟اس کے نزدیک یہ’ ’ترقی ‘‘ محض ایک چھلاوا ہے۔اسے یہ سب ترقی نہیں چاہئے۔اسے اپنی جان کی امان چاہئے اور ساتھ ہی عزت کے ساتھ دو روٹی مل جائے ،بس۔حکومت چاہے جتنے بھی خواب دکھائے، کم ازکم اُسے ہضم نہیں ہوتا۔گزشتہ کالم میں کرکٹر ظہیر خان کی منگنی کے تعلق سے لکھا گیا تھا کہ ایک برہمن لڑکی سے وہ شادی کر رہا ہے۔اسی طرح شاہ رخ خان ،عامر خان ،سیف علی خان،عرفان ،عمران خان،عرباض خان ،سہیل خان،منوج باجپئی۔ریتک روشن،مختار عباس نقوی،شہنواز حسین۔۔۔۔۔اور یہ فہرست طویل ہے جنہوں نے دوسرے مذاہب میں شادیاںکی ہیں،ان کے خلاف یہ ہندو وا ہنی کے رومیو اسکواڈ کیوں نہیں واویلا مچاتے؟ان کے نشانے پر صرف نہتے اور غریب مسلمان ہی کیوںہیں ؟
در اصل ایک منظم سازش کے تحت حکمراں جماعت اور اس کی ذیلی تنظیمیں مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔یہ مسلمانوں کو ردعمل پر مجبور کرنا چاہتی ہیں تاکہ خون خرابہ ہواور انہیں لوٹ مار کے مواقع ملیں۔افسوس کہ پولیس بھی اُن کی پشت پناہی کر رہی ہے،جس کی وجہ سے ان عناصر کے حوصلے بلند ہیں۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہی صورت حال پورے ملک میں پیدا کرنا چاہتے ہیں ،جو کشمیر میں برپا ہے۔کشمیر کے تعلق سے انصاف پسند شخصیات اور دانشوروں کا موقف یہی ہے کہ جس طرح کشمیر ہمارا ہے،اسی طرح کشمیری بھی ہمارے ہیں۔اس لئے ان کے ساتھ ہمدردانہ ،مشفقانہ اور منصفانہ رویہ اختیار کیا جانا چاہئے۔اگر حکومت اس اصول کو اپنانے کی کوشش کرے تو یقینی طور پر جنگجوئیت میں کمی آئے گی لیکن اس کے منصوبے شاید کچھ اور ہیں۔اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخرہندوستانی فوج،سی آر پی ایف اور مقامی پولیس پر سے کشمیریوں کا اعتمادکیوں اْٹھ گیا ہے اور حکومت کے تئیں اْن میں غم و غصہ کیوں ہے؟آر۔ کے۔ نارانین جومرکزی حکومت کے سابق سیکورٹی صلاح کار اور مغربی بنگال کے گورنر رہ چکے ہیں ،نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کشمیری ’’انتفا ضہ‘‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔انتفاضہ‘‘ اسے کہتے ہیں جس تحریک کا کوئی رہنما نہیں ہوتا،بغیر رہنما اور قائد کے یہ تحریک آگے بڑھتی ہے جو پر تشدد ہوتی ہے۔دوسرے لفظوں میں ایک ایک فرد قائد اور رہنما ہوتا ہے۔محبوبہ مفتی بھلے ہی یہ کہیں کہ پتھر بازی میں صرف ۵؍فیصد ناراض افراد شامل ہیں لیکن یہ سچ نہیں ہے۔صورت حال یہ ہے کہ اِس وقت پورا کشمیر آگ کے ڈھیر پر ہے،یہ ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔۔۔۔۔۔اور خدا نہ کرے کہ ملک کی مجموعی صورتحال کشمیر جیسی ہو۔۔۔۔کیونکہ یہ تصور ہی بڑا بھیانک ہے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو ، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ9833999883