"کتنی بار کہا ہے تمہیں! بس اب نکل جاؤ! تمہاری اس گھرمیں ویسے بھی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ گھر کا ایک بھی کام نہیں کرتے ہو"۔ اپنے بیٹے معراج کے منہ سے ایسے الفاظ سن کر باپ اپنے ہاتھوں سے بنائے گھر کی ایک ا ایک اینٹ کو ترستی آنکھوں سے دیکھنے لگا، آنکھوں سے نکلی ہوئی آنسوئوں کی دھار کو پھیرن کے آستین سے پونچھتے ہوئے اور دیوار کا سہارا لیتے ہوئے بیٹے سے پوچھا"۔۔۔۔ کیا یہ میرا گھر نہیں ہے!! اس کی ایک ایک اینٹ میرے خون پسینے کی کمائی ہے اور تم کہتے ہو کہ اب میری ضرورت ہی نہیں ہے۔"
"۔۔۔۔اجی میں نے آپ سے کتنی بار کہا ہے کہ ان دو بوڑھوں کو اولڈ ایج ہوم بھیج دیتے ہیں لیکن تم مانو تو۔۔۔۔۔" معراج کی بیوی بول پڑی۔
"ہاں تم صحیح کہہ رہی ہوں! ان کا بہترین علاج یہی ہے! اب تو ویسے بھی جائیداد کی وصیت میرے نام ہو چکی ہے۔ اب بس۔۔۔" معراج بول پڑا۔
���
لوہند، شوپیاں،متعلم، جماعت دہم