آپ جناب کو یہ اصولی بات معلوم ہی ہے کہ کسی بھی نظام تعلیم میں استاد ریڑ ھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتا ہے ۔ہمارے بچوں کی تعلیم و تدریسی اور اخلاقی تربیت استاد ہی کی رہین منت ہوتی ہے۔معلم بالفعل قوم کا رہبر ہوتا ہے کیونکہ آئندہ نسلوں کو پروان چڑھانا اور انہیںملک و قوم کی خدمت کے قابل بنانا اورا نہیں محو پرواز کر نااُسی کے دم قدم سے ممکن ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مشاہیر عالم کہہ کر گئے ہیں کہ سب محنتوں سے اعلیٰ درجہ کی محنت اور کار گذاری معلم کی کار گذاری اور خدمت ہوتی ہے اوراسی بنا پر ایک حقیقی معلم یہ استحقاق رکھتا ہے کہ بنی نوع انسان اس کے تعظیم و تکریم بجا لائے ۔چنانچہ محققین ،مفکرین ، موجدین ،فلاسفر ،سائنس دان،شاعر، دانش ور،ادیب اور سیاست دان غرض جو بھی کوئی عظیم المرتبت شخصیت اس دنیا میں گذری ہے یا بقید حیات ہے، وہ کسی استاد ہی کی بدولت ترقی اور قدرو منزلت کی منزلوں کو طے کرگیا ہوتا ہے۔تمام مذاہب استاد کے پیشے کو مقدس اور عظیم مانتے ہیں اور انہی معنوں میں استاد کی عزت و احترام پر بے حد زور دیتے ہیں۔ایک استاد بچے کے اندر سیکھنے کی لگن ، جاننے کی جستجو اور آگے بڑھنے کا عزم پیدا کرتا ہے۔استاد کا کردار معاشرے میں کلیدی نوعیت کا فرد ہوتا ہے ، وہی طالب علم کو دینا میں آگے بڑھنا سکھاتا ہے اور اسے سماج کے لائق فرد ،بشر ہونے کے قالب میں ڈھالتا ہے ۔اگر ہمارے پاس یہ عظیم سرمایہ نہ ہوتا تو معاشرہ خرافات و فضولیات کا گہوارہ بننے میں دیر نہ لگتی مگر افسوس صد افسوس! آج یہی استاد وقت پر تنخواہ نہ ملنے کے سبب زندگی کے ہر شعبے میں انحطاط و ادابار اور سماجی تذلیل کا شکارہورہاہے۔وقت پر تنخواہ نہ ملنا ایک استاد پر سب سے بہت بڑی زیادتی ہے ۔جب اساتذہ کی مالی حالت بہتر نہیں ہو ،ان سے اچھی کار کردگی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ایک خوشحال استاد ہی صحت مند تعلیمی ماحول کی ضمانت دے سکتا ہے۔پچھلے چھ یا سات مہینوں سے رہبر تعلیم اساتذہ صاحبان کی تنخواہ رُکی پڑی ہے ۔ میرے خیال میں اس سلسلے میں ایک تو ان کی قسمت ان سے روٹھی ہوئی ، دوم موجودہ اعلیٰ حکام اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر میں سنجیدہ نہیں لگتے۔ ہماری قوم کے معلمین اپنا مشاہرہ وقت پر نہ ملنے سے کافی تنگ دستی اور خانگی و سماجی مشکلات سے دوچار ہوں تو وہ اپنے پیشے سے کیا انصاف کر پائیں گے؟ ان کے گھریلو حالات ویسے قلیل آمدنی اور بے حد مہنگائی کے سبب کافی زیر زبر ہو تے ہیں اور ان کے بال بچے بسااوقات فاقہ کشی یا اسکول اور کالج کی فیس اور دیگر تعلیمی مصارف ادا نہ کر نے کی وجہ سے عسرتوں اور مشکلوں سے بھری زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ آپ جناب کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جب ایک استاد اس نوع کی ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوگا تو وہ کیسے اچھی تعلیم وتربیت بچوں کو دے سکتا ہے؟ اگر آج کل رہبر تعلیم اساتذہ صاحبان کے ذاتی اور گھریلو حالات وکوائف پر سر سری نظر ڈالی جائے تو ایک انتہائی ناگفتہ تصویر نظر آتی ہے۔فی الوقت جموں کشمیر میں ہزاروں کم نصیب وبے نوا اساتذہ صاحبان تنخواہوں سے محروم ہیں۔ یہ ان کے ساتھ انتہاہی ظلم وجبرہے ، ان کے پاس آمدنی کا دوسرا ذریعہ نہ ہونے سبب مذکورہ اساتذہ صاحبان کا ذہنی تناؤ میں رہنا کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ان کے پاس اضافی مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ کومعاشرے میں کسن نگاہوں سے دیکھا جاتاہے ، اس صورت حال کو لفظوں کا جامہ پہنانے سے قاصر ہوں ۔ قرض خواہوں کے تقاضے پورے کر نے کے سبب یہ اتنے جھوٹے اور ناقابل اعتمادبن کر رہ جاتے ہیں کہ دوکاندار بھی انہیں ادھار دینے سے بھی صاف انکار کر دیتے ہیں۔اس سے بڑھ کر ایک استاد کو کیلئے کیا ذلت ہو سکتی ہے؟اب آپ ہی بتایئے کہ رہبر تعلیم اساتذہ صاحبان تنخواہ کے بغیر جائیں تو کہاں جائیں؟جب قوم کے معمار ناداری ا ور بھوک سے مر رہے ہوں تو وہ اوروں کے بچوں کے اچھے مستقبل کی تعمیر کیا کرسکتے ہیں؟ حال ہی میں نے جب ایک استاد کے زبانی یہ سنا تو مجھے کافی دکھ ہو ا کہ وہ اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن نہیں ،مالی پریشانیوں اور گھریلو حالات کی وجہ سے ذہنی دبائو کا شکار ہے ، اُداسیوں کی تصویر بنا ہے تو مجھ سے برداشت نہ ہو ا۔ میرے سامنے بیٹھے کہہ رہا تھا: میں آج خالی جیب ہونے کے سبب جن ناقابل بیان حالات سے گذر رہا ہوں، اس سے مرنا ہی بہتر ہے ۔اس کے بعد شکستہ لہجے میں کہا کہ تنخواہ نہ ملنے کے سبب میں اپنے اہل و عیال کو خوش نہیں رکھ پاتا ہوں، اگر وقت پر تنخواہ ملتی تو کم سے کم اپنے آپ کو اسکول کے کام کاج میں مطمئن محسوس کرتا ۔
جناب والا! آج رہبر تعلیم اساتذہ اپنی زندگی کے سب سے سیاہ دور سے گذر رہے ہیں ،انہوں نے مبنی بر انصاف مطالبات کے حق میں طویل مدت تک جدو جہد کی لیکن کسی نے بھی ان کے مسئلے کی طرف توجہ مبذول نہ کی۔اس وجہ سے باربار رہبر تعلیم اساتذہ صاحبان خاص کر پامالی اور شکستگی کے شکار دِ کھ رہے ہیں اور ان کے لئے ایک طرف اپنے فرائض کا تقدس ہے اور ودسری طرف غربت و افلاس کی ناہنجاریاں ہیں ۔اس سے وہ انتہائی نفسیاتی اضطراب اور ذہنی کرب میں جی رہے ہیں۔ ان کی داستان وہی انسان سمجھ سکتا ہے جسے شام کو گھر لوٹ کر اپنے اہل و عیال کیلئے کھانا میسر نہ کر سکے ۔ آپ جناب سے مودبانہ التماس ہے کہ براہ کرم رہبر تعلیم اساتذہ صاحبان پر رحم کھا تے ہوئے ان کی مالی مشکلات دورکرنے کیلئے خصوصی لائحہ عمل فوراً تر تیب دے کر ان کی تنخواہیں واگزار کرائیں اور ان کے اہل وعیال سے دعائیں لیجئے ۔ ان اساتذہ کو آپ کی انسانیت ، شرافت اور فعالیت سے امید ہے کہ ان کی رُکی پڑیں تنخواہیں جلد از جلد وا گذار کروائیں گے تا کہ انہیں تنگ دستی کی حالت میں مزید تڑپنا نہ پڑے۔
نگاہ بلند سخن دلنواز جان پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کیلئے
(اقبال ؒ)
8803856812