سرینگر // عوامی اتحاد پارٹی صدر انجینئر رشید نے وزیراعظم نریندر مودی سے اپنی کشمیر پالیسی پر نظر ثانی کر کے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔انہوں نے نریندر مودی سے کہا کہ ہم آپ کے دشمن نہیں لیکن کشمیر کے مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں کشمیر ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اُس کو پولیس، فوج اور ایجنسیوں سے نہ چلائیں بلکہ اس مسلئے کو سیاست سے حل کرنے کی کوشش کریں ۔ انجینئر رشید نے کہا کہ اُن کی ہار میں بھی اُن کی جیت ہوئی ہے کیونکہ لوگوں نے اُن پر مکمل اعتماد جتلا کر فرقہ وارانہ اور قبائلی سیاست کو رد کردیا ہے۔پریس کلب سرینگر میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انجینئر رشید نے کہا میں پورے بھارت میں ایسا اُمیدوار تھا جس کو لوگ ہار کر بھی مبارک باد پیش کرتے رہے ۔انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے بارہمولہ پارلیمانی نشست سے جیت درج کی اور وہ پیپلز کانفرنس سے صرف 460ووٹوں سے پیچھے رہا، یہ کہنا اس لئے مناسب سمجھا کیونکہ کچھ ایک لوگوں نے اعداوشمار غلط پیش کئے ہیں ۔انجینئر رشید نے کہا کہ انہیں اس بار نہ صرف عسکری پسندوں کے گھر والوں نے ووٹ ڈالے بلکہ فوجی جوانوں نے بھی میرے حق میں ووٹ کا استعمال کیا ۔عوامی اتحاد پارٹی صدر نے کہا ’’ میری یہ اطلاع وزیر اعظم نریندر مودی سے لیکر عسکری پسندوں اور حریت قیادت کیلئے ہے۔انہوں نے کہا کہ بارہمولہ کے78سالہ نامور قلمکار اور اسکالر خالق پرویز، جنہیں محض اٹھارہ سال کی عمر میں فقط مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرنے پر تشدد کرکے ایک دہائی تک جلا وطن ہونے پر مجبور کردیا گیا تھا، بارہمولہ میں کھلے عام نکل آیا اور میرے حق میں ووٹ کا استعمال کیا بلکہ ہندواڑہ کے ایک اعلیٰ مرحوم جنگجو کمانڈر کے 90 سالہ والد ثناء اللہ وانی ،جس کے اپنے جسم پر ٹارچر کے نشان ہیں، 2008سے آج تک وہ بڑے فخر سے یہ کہہ کر گھر سے نکلتا ہے کہ اُس کو انجینئر رشید کے حق میں ووٹ ڈالنا ہے‘‘ ۔انہوں نے کہا کہ پریس کانفرنس کا مقصد یہی ہے کہ ایسے لوگوں سے وعدہ کرنا ہے کہ میں آپ لوگوں کو کبھی مایوس نہیں ہونے دوں گا اور آپ کے حقوق کیلئے مجھے لڑنا ہے، چاہئے میرا ایک ایک خون کا قطرہ کیوں نہ بہہ جائے ۔انجینئر رشید نے کہا کہ نیشنل میڈیا اور دیگر ایسی تنظیموں کیلئے یہ سبق ہے اور جو لوگ مجھے پاکستان کا ایجنٹ کہتے تھے اور جن لوگوں نے فوجی جوانوں کی لاشوں پر سیاست کی، یہ اُن کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے کہ اس بار انہیں نہ صرف عسکری پسندوں کے گھر والوں نے ووٹ دئے بلکہ فوجی جوانوں نے بھی جم کر ہمارا ساتھ دیا ۔انہوں نے اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے کہا3000 بیلٹ ووٹ پڑے جن میں بی جے پی کو 552، پی ڈی پی کو223 این سی کو 457، پیپلز کانفرنس کو 141 اور انجینئر رشید کو 1ہزار4سو91ووٹ پڑے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کی صرف اتنی وجہ ہے کہ انہوں نے اسمبلی ہو یاپھر اُس کے باہر صرف ایک ہی بات کی۔ میری سیاست کا مقصد یہ رہا’’ مائوں کی گودیں خالی نہ ہوں ،برہان کی ماں اُس کو زندہ دیکھنا چاہتی تھی ،ذاکر موسیٰ کی ماں اُس کو زندہ دیکھنا چاہتی تھی ،اسی طرح فوجی کی ماں بھی اپنے بیٹے کو زندہ دیکھنا چاہتی ہے ، سیاسی ورکر کی ماں بھی اپنے بیٹے کو زندہ دیکھنا چاہتی ہے اور یہ بات میرے سواء کسی نے نہیں کہی۔ میں پچھلے دس برسوں سے یہی چیخ وپکار کر رہا ہوں کہ کسی بھی فوجی کی لاش اُس کی ماں کو ترنگے میں لپٹی ہوئی نہیں چاہئے، اُس کو اپنے بیٹے کی زندگی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ آر پار لوگوں سے یہ پوچھنا چاہئے کہ کشمیر کا مسئلہ کیسے حل کیا جا سکے تاکہ فوجی کے گھر میں لاش نہ پہنچے ،جنگجو کی لاش اُس کے گھر نہ پہنچے یہی وجہ ہے کہ جہاں مجھے عسکری پسندوں کے اہل خانہ نے ووٹ ڈالے، وہیں فوجیوں نے بھی جم کر انجینئر رشید کو ووٹ ڈال کر دلی کو یہ دکھا دیا ۔انہوں نے دہلی سے کہا کہ اگر شمالی کشمیر کا نوجوان آج ووٹ ڈالنے کیلئے نکلا تو وہ آپ کیلئے نہیں بلکہ انجینئر رشید کیلئے نکلا تھا ۔انہوں نے کہا کہ اگر کچھ ایک جگہوں پر دہلی کے دلالوںنے الیکشن بائیکاٹ نہ کرایا ہوتا تو آپ کی چھٹی ہو گئی ہوتی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے ان پارٹیوں کا نوٹس لینے کی گذارش کی جنہوں نے انتخابات کے حتمی نتائج کو متاثر کرنے کیلئے بعض علاقوں میں بائیکاٹ کروایا۔