دنیا میں تین طرح کے ممالک ہیں ۔ترقی یافتہ ، ترقی پذیر اورپسماندہ۔ترقی یافتہ ممالک والے تیسری قسم کو تیسری دنیا سے بھی پکارتے ہیں۔ہمارا کس میں شمار ہوتا ہے ، یہ طے کرنا آسان نہیں ۔ہمیں خود پتہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کے زمرے میں ہم نہیں آتے اور ممکن ہے کہ آئندہ ۵۰؍برسوں تک بمشکل اس اعزاز کو پا سکیں ۔ہمارے اس اعزاز کے پانے تک جو آج ترقی یافتہ ممالک ہیں ،پتہ نہیں ترقی کی کس انتہا پر پہنچ جائیں گے اور اپنے لئے کوئی دوسری اصطلاح گڑھ لیں گے۔اس ترقی کا پیمانہ صرف معاشی طور پر خوشحالی سے ہے یا اوردیگر عوامل بھی ہیں جو اس ترقی میں چار چاند لگاتے ہیں ، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔پتہ یہ چلتا ہے کہ معاشی حالت کی بہتری کی اہمیت کلیدی تو ہے لیکن ساتھ ہی انسانی اقدار کی ترقی اس میں زیادہ اہم ہے۔یہی سبب ہے کہ مغربی ممالک ہم سے ہر میدان میں آگے ہیں کیوں کہ اُن کے یہاں انسانی اقدار کا ایک واضح تصور ہے اور اسی کی ترقی و ترویج میں وہ ہمہ وقت مصروف بہ عمل ہیں۔
ہمیں جو ترقی پذیر ممالک کے زمرے میں شامل کیا جا تا ہے(جسے وثوق سے کہا نہیں جا سکتا) وہ بھی صرف معاشی ترقی کی بنا پر کہ ہندوستان کی معیشت ۶؍تا ۹؍ فیصد کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ ہماری آبادی ہے اور اس میں بھی خاص بات یہ ہے کہ نوجوانوں اور جوانوں کی آبادی ۷۰؍فیصد سے بھی زیادہ ہے۔آبادی ہمارے لئے یہاں رحمت بنی ہوئی ہے اور ایک تقاضاہے جس کے تحت ہماری معاشی ترقی کو فروغ پانا ہی ہے ورنہ کیا یہ عجب نہیں کہ امریکہ اور دیگر یوروپی ممالک کیمعیشت ۱؍تا ۳؍فیصد کی شرح سے ہی بڑھ رہی ہیں ؟اس کا جو اہم سبب ہے وہ وہاں کی آبادی میں کمی کا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ویسا تقاضاوہاں نہیں ہے۔انفرااسٹرکچر کے نام پر اُنہوں نے ضرورت سے زیادہ کام کر لئے ہیں اور ہمارے یہاں اِس کے لئے میدان کا میدان پڑا ہوا ہے۔لیکن ایک بات ہے کہ اُنہوں نے معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار کی ترقی کو بھی اپنایا ہے جو ہمارے یہاں مفقود ہے۔
آپ یہ سوچ رہے ہوںگے کہ میں کہنا کیا چاہتا ہوں اور اس تمہید کے پیچھے کیا ہے؟ہندوستان میں موسم تو انتخابات کا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی موضوع ہی نہیں ہے جس پر کوئی کلام کیا جائے۔یہ بھی عجب ہے کہ یہاں انتخابات بارہ مہینوں چل رہے ہیں ۔ویسے پہلے بھی ہوتے تھے لیکن اِس طرح جنگ کی مانند نہیں لڑے جاتے تھے۔انتخابات تو اور ممالک میں بھی ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں لیکن گزشتہ ۵؍برسوں سے انتخابات کا جوپیٹرن ہندوستان نے اختیار کیا ہے اور خاص طور پر بی جے پی نے اِس انتخابی عمل کو ایسا رنگ و روپ عطا کیا ہے کہ ساری بساط ہی اُلٹ گئی ہے۔ابھی ابھی جاپان میں انتخابات ہوئے اور شِنجو آبے بھرپور اکثریت سے دوبارہ چُن لئے گئے ۔اُن کیحامیوںنے انہیں پسند کیا ، اُن کے کام کو پسند کیا اور بھاری ووٹ سے انہیں فتحیاب بھی کر دیا۔کوئی ہنگامہ نہیں ،کوئی خرافات نہیں ۔اسی طرح پڑوسی ملک چین میں بھی ایک بار پھر سے ژِی پِنگ کو آئندہ میعاد کے لئے اختتام پذیر کانگریس میں بلاشرکت غیرے منتخب کر لیا گیا اور چین پھر سے اپنی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔یہاں بھی کوئی ہنگامہ نہیں ،کوئی خرافات نہیں۔مودی بھی یہی چاہتے ہیں کہ اِن کے لوگ انہیں آبے اور ژِی کی طرح اقتداربھاری اکثریت سے سونپتے جائیں لیکن اُن ہنگاموں اور خرافات کا کیا جو مودی اور مودی اینڈ کمپنی بار بار پیدا کرتے ہیں ؟پھر سطح اور کلاس کی بھی بات ہوگی تو نسل پرستی کا الزام در آئے گا۔مودی جی جو سیاست ہندوستان اور اس کے عوام کے ساتھ کر رہے ہیں اس کی سطح انتہائی ’نچلی‘ ہے اور اسی سے ان کی اوران کی پارٹی کے کلاس اور معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔
خود بار بار کہتے ہیں کہ میں چائے بیچنے والا ہوں اور یہی بات جب دوسروں نے کہہ دی تو اُنہیں اور پارٹی کو ناگوار گزر گئی اور اس کو توڑ مروڑ کر ایشو(موضوع) بنا ڈالا۔جیسا کہ ہم سب کو معلوم ہے کہ ہر مہینے کے آخری اتوار کو مودی جی بطور وزیر اعظم ریڈیو پر’ من کی بات‘ کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہ سرکاری مشنری کا استعمال ہے لیکن گجرات ،جہاں پر انتخابات ہونے کو ہیں اِس ریڈیائی پروگرام کو بھی ایک بڑی تقریب میں بدل دیااور تقریباً۵۰؍ہزار بوتھوں پر بی جے پی کے سرکردہ لیڈران نے اپنے ورکروں کے ساتھ’’من کی بات چائے کے ساتھ‘‘ پروگرام کا اہتمام کر ڈالا اور مودی جی کی تقریر کو اس طرح سنتے پائے گئے جیسے کوئی بہت بڑا دانشور خطاب کر رہا ہواور اس کی ایک ایک بات غور وفکر سے پُر ہو۔چائے کا تڑکا اس لئے ڈال دیا کہ چند روز پہلے یوتھ کانگریس نے ایک کارٹون کے ذریعے مودی کے چائے بیچنے کو ٹویٹر پر پوسٹ کیا تھا۔حالانکہ انہوں نے اس پیغام کو وہاں سے ہٹا بھی لیا تھا اور معافی بھی مانگ لی تھی لیکن مودی جی نے ۲۰۱۴ء کے عام چناؤ میں بھی اپنے چائے بیچنے کو بھُنایا اور اب گجرات کے انتخابات میں بھی اِس چائے کو بھُنانا چاہتے ہیں ۔پتہ نہیں ہندوستانیوں اور باالخصوص گجراتیوں کو وہ کتنا بے وقوف سمجھ رہے ہیں ؟ کیوں کہ ٹرمپ کی بیٹی ایونکا نے بھی حیدر آباد کے عالمی تجارتی کانفرنس میں مودی کو چائے والے پی ایم کہہ کر مخاطب کیا اور ان کی اِس عہدے تک کی ترقی کو لاجواب قرار دیا۔شبہ ہوتا ہے کہ کہیں مودی نے ٹرمپ کو فون کر کے ایوننکا سے ایسا کہنے کے لئے کہا ہوکیونکہ ہاٹ لائن پر ٹرمپ سے بات کرنے کا مودی کو اعزاز حاصل ہے۔اور یہ مودی کر سکتے ہیں کیونکہ الیکشن جیتنے کے لئے وہ کسی سطح(نچلی ) پر بھی جا سکتے ہیں۔اس طرح کی تقریر(ریڈیو پر) کوئی اور نہیں کر سکتا مثلاً راہل گاندھی یا حزب اختلاف کا کوئی اور لیڈرتاکہ وہ بھی اپنی پارٹی کو انتخابی فائدہ پہنچا سکے۔تو کیا الیکشن کمیشن کو اس کا نوٹس نہیں لینا چاہئے جو فائدہ سرکاری مشنری (ریڈیو ) کا استعمال کر کے مودی جی نے اٹھایا۔
بہرکیف الیکشن کمیشن سے کوئی امید نہیں ہے۔اس کی خود مختاری پر سوالات یوں ہی نہیں اٹھنے لگے ہیں ورنہ ہماچل پردیش کے انتخابات کجرات کے ساتھ ہوتے یا ہماچل پردیش کے ساتھ گجرات کے الیکشن ہوتے۔اس طرح ۴۰؍دنوں تک امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ڈبے میں بند کر کے نہیں رکھا جا تاجو ہماچل پردیش میں ہوا ہے۔یہ اپنی نوعیت کا غالباً پہلا واقعہ ہے۔یہ معلوم حقیقت ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر جیوتی ہی ۲۰۰۲ء کے گجرات فسادات کے دنوں میں گجرات کے چیف سکریٹری تھے ۔یوپی میں بلدیہ کے انتخابات (۲۰۱۷ء )کے نتائج کو بھی اسی طرح بند ڈبے میں کیوں نہیں رکھا جا سکتاکیونکہ ان کے نتائج بھی گجرات کے الیکشن نتائج کو متاثر کر سکتے ہیں لیکن ایسا کمشنر صاحب کریں گے نہیں۔اسی طرح کیرلا کی ہادیہ کا معاملہ ہے جو جان بوجھ کر مرکز کے زیر انصرام این آئی اے کے سپرد کیا گیا ہے۔ذرا غور کیجئے اگر ہادیہ نے برعکس بیان دیا ہوتا تو آج گجرات میں یہی’ لو جہاد ‘بہت بڑا موضوع بن جاتا۔اسی طرح سی بی آئی،شعبہ ٔ انکم ٹیکس،اِی ڈی جو سب مرکز کے زیر انصرام چلنے والے ادارے ہیں ، سب کا بڑے پیمانے پر( غلط) استعمال مودی حکومت کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔
بات ہو رہی تھی مودی جی کی نچلی سطح کی سیاست کی ،کہ وہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔گجرات میں اپنی الیکشن ریلی کے دوران ایک جگہ انہوں نے کہا کہ پنڈت نہرو نے سومناتھ میں مندر بننے دینا نہیں چاہا،وہ تو خیر سے سردار پٹیل تھے تو یہ کام ہو گیا۔ایک دوسری ریلی میں کہا کہ اندرا گاندھی جب گجرات آتی تھیں تو اپنے منہ پر رومال رکھ لیتی تھیں کیونکہ وہ گجراتیوں کی غریبی اور کسمپرسی کا مذاق اڑاتی تھیں۔ایک جگہ کہا کہ یہ نہرو ،اندرا ،راجیو،راہل وغیرہ تو شہزادوں کی سی زندگی گزارنے کے لئے پیدا ہوئے وہیں ہمارا گجراتی(گاندھی) ایک دھوتی میں فقیر کی طرح زندگی بھر رہا۔مودی تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کانگریس ترقی ،گجرات اور گجراتیوں سے نفرت کرتی ہے ۔حد تو یہ ہو گئی جب سومناتھ مندر میں راہل گاندھی کو غیر ہندو ثابت کرنے کے لئے بی جے پی نے نقلی رجسٹر کا سہا را لیا اور احمد پٹیل کے ساتھ راہل گاندھی کو غیر ہندو ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اسے منہ کی کھانی پڑی۔
در اصل بی جے پی اس بار گجرات کے انتخابات کو مذہبی رنگ دینے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔اس کی کوشش تو رات دن جاری ہے کیونکہ اس نے اب تک کے تمام انتخابات اسی مذہبی موضوع کو ہوا دے کر جیتے ہیں۔بھلا بتائیے اب نہرو کو بھلا برا کہہ کر یا اندرا کو نیچا دکھا کرکیا حاصل ہونے والا ہے؟سونیا گاندھی پر کیچڑ اچھال کر یا راہل گاندھی پر نشانے کَس کر کیا مل جانے والاہے؟بی جے پی کے پاس مذہب اور وہ بھی ہندتوا کے سوا کچھ ہے بھی نہیں۔سبرامنیم سوامی نے کچھ دنوں پہلے ٹھیک ہی کہا ہے کہ گجرات کے لوگ بی جے پی سے کتنا ہی کیوں نہ بھڑکے ہوں لیکن اندر جا کر وہ بیلٹ پرہندتوا کو ہی گلے لگائیں گے۔دیکھتے ہیں کہ گجراتیوں یا ہندوستانیوں کے لئے اُن کا پیٹ عزیز ہے یا ہندتوا؟یا اسے ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ پیٹ پہلے ہے یا ہندتوا؟
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883