وزیراعظم نریندر مودی نے 15اگست کو یوم آزادی کی تقریب پر پھر یہ اعتراف کیا ہے کشمیر کا مسئلہ گالی اور گولی سے حل نہیں ہوسکتابلکہ اس کا حل صرف کشمیری عوام کو گلے لگانے میں ہی مضمرہے۔ انہوںنے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی، جو گزشتہ روز انتقال کر گئے کی کشمیر پالیسی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ انکی حکومت اُسی پالیسی پرگامزن ہے۔ یہ بات قابل ذکر کہ آنجہانی واجپائی نے کشمیر کے حل کےلئے’’ انسانیت ، جمہویت اور کشمیریت ‘‘کو بنیادی عناصر گردانتے ہوئے انہی کی بنیاد پر مسئلے کا حل تلاش کرنے کا اعلان کیا تھا۔ بعد اذاں انکے اس اعلان پر کس حد تک عمل ہوا تھا، وہ تو بہر حال تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن مسئلہ نہ صرف ویسے کا ویسا ہی ہے بلکہ تب سے اب تک ہلاکتوں کا سلسلہ چل رہا ہے،جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ یہ ا یک مسلمہ حقیقت ہے کہ تشدد اور انتہا پسندی ، خواہ وہ کسی بھی سمت سے ہو،سے دنیا کا کوئی مسئلہ آج تک حل ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ یہی اُصول ریاست جموںوکشمیر پر بھی صادق آتا ہے۔ لہٰذا جب تک صورتحال کا اسکے تاریخی پس منظر میں ادراک کرکے سنجیدگی اور خلوص نیت سے تجزیہ نہ کیا جائے تب تک کسی حل کی توقع رکھنا عبث ہے۔فی الوقت کشمیر کی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ آئے روز کی ہلاکتوں کے بیچ زبانی وعدوں اور دعوئوں کا یقین کرنا کسی بھی طرح سے ممکنات میں نہیں ہوسکتا ۔ ٹکرائواو رتصادم آرائیوں کے نتیجے میں پید اہونے والی صورتحال کے دوران عام انسانوں کے حقوق جس عنوان سے پامال ہو رہے ہیں اور جس پر وقت وقت حقوق انسانی کے ادارے اور عدلیہ بھی اپنی برہمی کا اظہار کرتے رہے ہیں ایک سنگین معاملہ ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔مگر زمینی سطح پر صورتحال میں کوئی بہتری دیکھنے کو نہیں ملتی ہے۔ وزیراعظم کا یہ ماننا کہ گالی اور گولی مسئلہ کا حل نہیں ہے اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ مرکزی حکومت مسئلہ کے فریقین کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا سلسلہ شروع کرے اور اسکی بنیادیں استوار کرنے کی خاطر افہام و تفہیم کی فضاء پیدا کرنا لازمی ہے اور ایسی فضاء قائم کرنے کی خاطر خیر سگالی کے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے مگر جہاں تک موجودہ صورتحال کا تعلق ہے تو خیر سگالی کے ان جذبات کا کہیں سے بھی مظاہرہ نہیں ہو رہا ہے۔ بجائے اس کے اگر یہ کہا جائے کہ مختلف سیاسی حلقوں کی مکانیت روز بہ روز مسدود کرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔حالا ت کے چلتے ایسے مباحث اُبھارے جا رہے ہیں، جن سے فضاء میں تکدر کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ فی الوقت آئین ہند کی دفعہ35-A، جیسےمرکزی حکمران جماعت کے ایک حلیف گروپ نے ہی سپریم کورٹ میں چلینج کیا ہے، موضو ع بحث بنا ہوا ہے اور اس مسئلے پر ریاست کے اندر علاقائی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر عوامی آراء کو تقسیم کرنے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہیں۔ یہ بھلا ہو سماج کے سنجیدہ فکر طبقوں کا جنہوں نے ان کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا ہے اور جموںمیں بھی اُسی عنوان سے رائے عامہ بن رہی ہے، جس طرح کشمیر کے اندر بنی ہے۔ یہ صورتحال مرکزی حکومت کےلئے ادراک حقیقت کا وسیلہ بننا چاہئے اور اگر وزیراعظم مودی آنجہانی واجپائی کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے زمینی سطح پر صورتحال تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کم ازکم انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے چلتے ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس کےلئے ضروری ہے کہ حقوق کی پامالیاں بند ہوں اور سبھی سیاسی حلقوں کے ساتھ مفاہمت کی فضاء قائم کی جائے، سیاسی اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر۔